43۔ دعائے رویت ہلال
(۴۳) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
اِذَا نَظَرَ اِلَى الْهِلَالِ
دُعائے رویت ہلال:
اَیُّهَا الْخَلْقُ الْمُطِیْعُ، الدَّآئِبُ السَّرِیْعُ، الْمُتَرَدِّدُ فِیْ مَنَازِلِ التَّقْدِیْرِ، الْمُتَصَرِّفُ فِیْ فَلَكِ التَّدْبِیْرِ، اٰمَنْتُ بِمَنْ نَّوَّرَ بِكَ الظُّلَمَ، وَ اَوْضَحَ بِكَ الْبُهَمَ، وَ جَعَلَكَ اٰیَةً مِّنْ اٰیَاتِ مُلْكِهٖ، وَ عَلَامَةً مِّنْ عَلَامَاتِ سُلْطَانِهٖ، وَ امْتَهَنَكَ بِالزِّیَادَةِ وَ النُّقْصَانِ، وَ الطُّلُوْعِ وَ الْاُفُوْلِ، وَ الْاِنَارَةِ وَ الْكُسُوْفِ، فِیْ كُلِّ ذٰلِكَ اَنْتَ لَهٗ مُطِیْعٌ، وَ اِلٰۤى اِرَادَتِهٖ سَرِیْعٌ، سُبْحَانَهٗ مَاۤ اَعْجَبَ مَا دَبَّرَ فِیْۤ اَمْرِكَ! وَ اَلْطَفَ مَا صَنَعَ فِیْ شَاْنِكَ! جَعَلَكَ مِفْتَاحَ شَهْرٍ حَادِثٍ لِّاَمْرٍ حَادِثٍ.
اے فرمانبردار، سرگرم عمل اور تیزرَو مخلوق اور مقررہ منزلوں میں یکے بعد دیگرے وارد ہونے اور فلک نظم و تدبیر میں تصرف کرنے والے! میں اس ذات پر ایمان لایا جس نے تیرے ذریعہ تاریکیوں کو روشن اور ڈھکی چھپی چیزوں کو آشکارا کیا، اور تجھے اپنی شاہی و فرماں روائی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی، اور اپنے غلبہ و اقتدار کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا، اور تجھے بڑھنے، گھٹنے ، نکلنے، چھپنے اور چمکنے گہنانے سے تسخیر کیا، ان تمام حالات میں تو اس کے زیر فرمان اور اس کے ارادہ کی جانب رواں دواں ہے، تیرے بارے میں اس کی تدبیر و کارسازی کتنی عجیب اور تیری نسبت اس کی صناعی کتنی لطیف ہے، تجھے پیش آیند حالات کیلئے نئے مہینہ کی کلید قرار دیا۔
فَاَسْئَلُ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكَ، وَ خَالِقِیْ وَ خَالِقَكَ، وَ مُقَدِّرِیْ وَ مُقَدِّرَكَ، وَ مُصَوِّرِیْ وَ مُصَوِّرَكَ: اَنْ یُّصَلِّیَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ اٰلِهٖ، وَ اَنْ یَّجْعَلَكَ هِلَالَ بَرَكَةٍ لَّا تَمْحَقُهَا الْاَیَّامُ، وَ طَهَارَةٍ لَّا تُدَنِّسُهَا الْاٰثَامُ، هِلَالَ اَمْنٍ مِّنَ الْاٰفَاتِ، وَ سَلَامَةٍ مِّنَ السَّیِّئَاتِ، هِلَالَ سَعْدٍ لَّا نَحْسَ فِیْهِ، وَ یُمْنٍ لَّا نَكَدَ مَعَهٗ، وَ یُسْرٍ لَّا یُمَازِجُهٗ عُسْرٌ، وَ خَیْرٍ لَّا یَشُوْبُهٗ شَرٌّ، هِلَالَ اَمْنٍ وَّ اِیْمَانٍ، وَ نِعْمَةٍ وَّ اِحْسَانٍ، وَ سَلَامَةٍ وَّ اِسْلَامٍ.
تو اب میں اللہ تعالیٰ سے جو میرا پروردگار اور تیرا پروردگار، میرا خالق اور تیرا خالق، میرا نقش آرا اور تیرا نقش آرا، اور میرا صورت گر اور تیرا صورت گر ہے سوال کرتا ہوں کہ وہ رحمت نازل کرے محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور تجھے ایسی برکت والا چاند قرار دے جسے دنوں کی گردشیں زائل نہ کر سکیں، اور ایسی پاکیزگی والا جسے گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں، ایسا چاند جو آفتوں سے بری اور برائیوں سے محفوظ ہو، سراسر یمن و سعادت کا چاند جس میں ذرا نحوست نہ ہو، اور سراپا خیر و برکت کا چاند جسے تنگی و عسرت سے کوئی لگاؤ نہ ہو، اور ایسی آسانی و کشائش کا جس میں دشواری کی آمیزش نہ ہو، اور ایسی بھلائی کا جس میں برائی کا شائبہ نہ ہو، غرض سر تا پا امن، ایمان، نعمت، حسن عمل، سلامتی اور اطاعت و فرمانبرداری کا چاند ہو۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْنَا مِنْ اَرْضٰى مَنْ طَلَعَ عَلَیْهِ، وَ اَزْكٰى مَنْ نَّظَرَ اِلَیْهِ، وَ اَسْعَدَ مَنْ تَعَبَّدَ لَكَ فِیْهِ، وَ وَفِّقْنَا فِیْهِ لِلتَّوْبَةِ، وَ اعْصِمْنَا فِیْهِ مِنَ الْحَوْبَةِ، وَ احْفَظْنَا فِیْهِ مِنْ مُّبَاشَرَةِ مَعْصِیَتِكَ، وَ اَوْزِعْنَا فِیْهِ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَ اَلْبِسْنَا فِیْهِ جُنَنَ الْعَافِیَةِ، وَ اَتْمِمْ عَلَیْنَا بِاسْتِكْمَالِ طَاعَتِكَ فِیْهِ الْمِنَّةَ، اِنَّكَ الْمَنَّانُ الْحَمِیْدُ، وَ صَلَّى اللّٰهُ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنَ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور جن جن پر یہ اپنا پرتو ڈالے ان سے بڑھ کر ہمیں خوشنود، اور جو جو اسے دیکھے ان سب سے زیادہ درست کار، اور جو جو اس مہینہ میں تیری عبادت کرے ان سب سے زیادہ خوش نصیب قرار دے، اور ہمیں اس میں توبہ کی توفیق دے اور گناہوں سے دور اور معصیت کے ارتکاب سے محفوظ رکھ، اور ہمارے دل میں اپنی نعمتوں پر ادائے شکر کا ولولہ پیدا کر، اور ہمیں امن و عافیت کی سپر میں ڈھانپ لے، اور اس طرح ہم پر اپنی نعمت کو تمام کر کہ تیرے فرائض اطاعت کو پورے طور سے انجام دیں، بیشک تو نعمتوں کا بخشنے والا اور قابل ستائش ہے، رحمت فراواں نازل کرے اللہ محمدﷺ اور ان کی پاک و پاکیزہ آلؑ پر۔
–٭٭–
طلوع ہلال کا منظر اتنا دلکش ہوتا ہے کہ جب سورج کی شعاعوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر شفق کے رنگین پردوں میں سے جھانکتا ہے تو ایک دنیا کی نظریں اس کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور ہاتھ اس صانع حقیقی کی بارگاہ میں بلند ہو جاتے ہیں جس نے ایک جرم تاریک کو غسل آفتابی دے کر نگاہوں کا مرکز بنایا اور اس کی راہ پیمائیوں اور اتار چڑھاؤ کی مختلف تبدیلیوں سے نظر افروزی کا سامان کیا جو کبھی ہلال ہے اور کبھی قمر، کبھی بدر ہے اور کبھی روبہ زوال، کبھی رات کے پہلے حصے میں درخشاں ہے تو کبھی رات کے آخری حصہ میں، کبھی خط ارتقاء کی طرف سرگرم سیر ہے تو کبھی تنزل و انحطاط کی طرف مائل، کبھی نظروں کے سامنے ہے تو کبھی نگاہوں سے روپوش۔ جس کے نتیجہ میں کبھی آسمانی وسعتوں سے لے کر زمین کی پہنائیوں تک نور و روشنی پھیل جاتی ہے اور کبھی ہر طرف اندھیرا چھا جاتا اور کرہ ارض گھٹا ٹوپ اندھیاریوں میں ڈوب جاتا ہے۔ مگر یہ تاریکی امید افزاء اور روشنی کی پیغامبر ہوتی ہے۔ کیونکہ جب بھی اندھیرا پھیلتا ہے اس کے بعد روشنی ضرور نمودار ہوتی ہے، اور یہ اندھیرا اس کی علامت بن جاتا ہے کہ اب روشنی کی نمود قریب ہے۔ چنانچہ ادھر تاریکی پھیلی، ادھر دلوں میں امید کی کرن چمکی اور چاند ایک آدھ دن کی روپوشی کے بعد نور و روشنی کا سامان لئے موجود ہو گیا۔ وہی طنطنہ و طمطراق، وہی گردش فضا و سیر آفاق، وہی گھٹنا، بڑھنا، چھپنا، ابھرنا۔ غرض چاند کی یہ تمام کیفیتیں اتنی دلفریب ہیں کہ نگاہیں اس کے نظارہ سے سیر نہیں ہوتیں اور ان گنت صدیوں کے باوجود اس کی کشش و دل آویزی میں کمی پیدا نہیں ہوتی۔ گویا یہ کسی حسن لازوال کا پر تو ہے جو اپنی جلوہ افروزی سے اس کی کشش کو کم نہیں ہونے دیتا اور اپنی تابش جمال سے اس کی ضیا و تابانی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کیا چشم بینا اس حسین نقش کو دیکھ کر نقش آرائے فطرت کے وجود سے انکار کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔
این ھمہ آیات روشن آن ھمہ خلق بدیع
کور چشمی کو نہ بیند کردگار خویش را
یہ اس کی کشش و دل آویزی ہی کا کرشمہ ہے کہ آب و گل کے بسنے والے اس پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور اس کی نور پاش و حسن افروز وادیوں تک پہنچنے کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ کسی کو «کمند کوتاہ و بازوی سست و بام بلند« کا احساس زمین گیر بنائے ہوئے ہے اور کوئی اسے تسخیر کرنے کیلئے خلائے بسیط کی راہوں کو ہموار کر رہا ہے۔ وہاں کسی انسان کے زندہ پہنچنے یا پہنچ کر زندہ رہنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو یا نہ ہو، مگر اس سلسلہ میں جو کوششیں بروئے کار آئی ہیں وہ ذہن انسانی کے ارتقاء کی آئینہ دار ہیں۔
اس سلسلہ میں ہیئت دانوں نے جو معلومات بہم پہنچائے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین سے چاند کا فاصلہ مستقل نہیں ہوتا، بلکہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ اس کا اوسط فاصلہ دو لاکھ اڑتیس ہزار آٹھ سو ساٹھ (2,38,860) میل ہے اور زیادہ سے زیادہ دو لاکھ باون ہزار سات سو دس میل اور کم سے کم دو لاکھ 21 ہزار 4 سو 63 میل ہے اور قطر 2 ہزار ایک سو 63 میل ہے جو دو ہزار دو سو 87 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے اور ایک ایسے زاویہ پر واقع ہے کہ اس کا 2/5 حصہ ہمیشہ اہل زمین کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اس میں گہرے کھڈ، جھلسے ہوئے چٹیل میدان اور سنگلاخ پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں ۵ ہزار فٹ سے ۱۸ ہزار فٹ تک بلند ہیں اور بعض ہیئت دانوں کا اندازہ تیس ہزار فٹ تک کا بھی ہے۔ اس کی کشش زمین کی بہ نسبت 1/6 حصہ ہے، اس طرح کہ اگر زمین پر ایک انسان کا وزن 175 پونڈ ہو گا، تو چاند پر اس کا وزن صرف 29.1/6 پونڈ رہ جائے گا اور اس کے جس حصہ پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہیں وہاں کا درجہ حرارت 130 سنٹی گریڈ ہوتا ہے اور جس حصہ پر شعاعیں نہیں پڑتیں وہاں صفر سے 120 درجہ سنٹی گریڈ کم ہو جاتا ہے۔ اس میں نہ سبزہ و روئیدگی کے نشان ہیں، نہ پانی کا وجود اور نہ ہوا کا گزر ہے۔ یہ تیرہ و تار کرہ سورج سے روشنی مستعار لیتا ہے اور یہی روشنی منعکس ہو کر ہماری راتوں کو روشن اور کرۂ زمین کو حسن و رعنائی کے جلووں سے معمور کر دیتی ہے۔ بعض علماء نے ارشاد الٰہی ﴿ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا﴾ [۱]: (اسی نے سورج کو ضیا‘ بار اور چاند کو روشن قرار دیا ہے) سے سورج کی روشنی کے اصلی اور چاند کی روشنی کے اکتسابی ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس طرح کہ قدرت نے سورج کیلئے ’’ضیا‘‘ اور چاند کیلئے ’’نور‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور ضیاء و نور میں اصلی و اکتسابی ہی کا فرق ہے۔ چنانچہ صاحب ریاض السالکین تحریر کرتے ہیں:
وَ قَالَ الْمُتَكَلِّمُوْنَ: الْقَآئِمُ بِالْمُضِيْءِ لِذَاتِهٖ هَوَ الضَّوْءُ كَمَا فِی الشَّمْسِ، وَ بِالْمُضِيْٓءِ بِغَيْرِهٖ هُوَ النُّوْرُ، كَمَا فِی الْقَمَرِ.
متکلمین کا قول ہے کہ جو چیز خود سے روشن ہونے والی چیز سے وابستہ ہو وہ ’’ضوء‘‘ ہے، جیسے سورج اور جو دوسرے سے روشن ہونے والی شے سے قائم ہو وہ ’’نور‘‘ ہے جیسے قمر۔ [۲]
امام علیہ السلام نے سرنامہ دُعا میں چاند سے خطاب کیا ہے۔ اس خطاب کی نوعیت وہی ہے جو زمان و مکان سے خطاب کی ہوتی ہے اور اس طرح کا مخاطبہ کلام عرب میں ذائع و شائع ہے اور اسے ایک مخلوق سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی رد ہوتی ہے جو سات آسمانی دیوتاؤں کے قائل تھے اور چاند کو ایک دیوتا سمجھ کر اس کی پرستش کرتے تھے۔ پھر بروج و منازل میں اس کی گردشوں اور مختلف تبدیلیوں سے اس کے مخلوق ہونے پر استشہاد کیا ہے۔ کیونکہ جو چیز ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی ہوتی اور مختلف تغیرات و تطورات کی آماجگاہ بنی رہتی ہے، وہ مخلوق و حادث ہوتی ہے اور حدوث ایک خالق و صانع کی احتیاج کا پتہ دیتا ہے۔چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت و ربوبیت کا ذکر فرمایا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کا مخلوق و مصنوع اور اس کے اقتدار کی ایک علامت اور اس کے ہمہ گیر تسلط کی ایک نشانی قرار دیا ہے تا کہ چاند دیکھتے وقت یہ تاثر ذہن میں قائم رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کی گزرگاہ میں ایک ذرّۂ بے مقدار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس کے سامنے کسی عظمت و تقدیس کا اظہار نہ ہونا چاہیے۔
چنانچہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے جو رویت ہلال کے آداب وارد ہوئے ہیں یا ان کے عمل سے ظاہر ہوئے ہیں ان میں یہ امر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ تذلّل و سرافگندگی صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے ہو اور اسے صحیفۂ قدرت کی ایک آیت اور عظمت الٰہی کی ایک نشانی کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ مثلا یہ کہ دُعا کے موقع پر چاند کی طرف ہاتھ یا سر یا کسی اور حصہ جسم سے اشارہ نہ کیا جائے۔ ہاتھوں کو اسی طرح بلند کیا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا کے وقت بلند کئے جاتے ہیں۔ چاند کا افق کسی طرف ہو، دُعا پڑھنے والا رو بقبلہ کھڑا ہو۔ البتہ جن فقروں میں چاند سے خطاب ہے ان فقروں کے پڑھنے کے وقت چاند کی طرف رخ کیا جا سکتا ہے۔ جس جگہ چاند دیکھے وہاں سے الگ ہونے سے پہلے دُعا پڑھ لے، تا کہ قدرت کی کرشمہ سازی کا تاثر مضمحل نہ ہونے پائے۔ چاند دیکھنے کے بعد مصحف، آب رواں، سبزہ و گل اور فیروزہ وغیرہ دیکھے تا کہ آنکھوں میں تر و تازگی، دلوں میں نزہت آفریں مسرت اور قدرت کی عجائب آفرینی کا تصور پیدا ہو۔
’’ہلال‘‘ کا اطلاق اگرچہ عام طور پر پہلی رات کے چاند پر ہوتا ہے مگر بعض اہل لغت کے نزدیک دوسری تاریخ کے چاند کو بھی ہلال کہا جاتا ہے۔ اور بعض ہلال کی آخری شب تیسری رات کو قرار دیتے ہیں۔ ’’ہلال‘‘، اہلال سے ماخوذ ہے اور ’’اہلال‘‘ کے معنی آواز بلند کرنے کے ہوتے ہیں اور عربی زبان میں جس لفظ میں ہائے ہوز اور تکرار لام ہو اس میں عموماً شہرت و بلند آوازی کے معنی ہوتے ہیں اور ’’ہلال‘‘ کی بھی یہی صورت ہے کہ جب وہ نکلتا ہے تو ہر طرف شہرت پھیل جاتی ہے اور زبانوں پر اس کا چرچا ہونے لگتا ہے۔ یا یہ کہ ’’ہلل‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ضعف و کمزوری کے ہیں۔ اور یہ چونکہ ایک باریک کمان کی صورت میں نظر آتا ہے اس لئے اسے ’’ہلال‘‘ کہا جاتا ہے۔
رویت ہلال صرف دیکھنے ہی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ تیس دن پورے ہو جائیں یا ایسے دو شخص گواہی دیں جن کی راست گوئی و فرض شناسی پر اعتماد ہو یا ایسی شہرت ہو جائے جس سے چاند کے ہونے کا یقین ہو جائے تو رویت ثابت ہے اور اس سلسلہ میں منجمین کے مقرر کر دہ اصولوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ وہ صرف ظنی و تخمینی چیزیں ہیں۔ مثلا یہ کہ ذیقعد کی چوتھی اور محرم کی پہلی، ذی الحجہ کی چوتھی اور صفر کی پہلی اور محرم کی چوتھی اور ربیع الاول کی پہلی، صفر کی چوتھی اور ربیع الثانی کی پہلی، ربیع الاول کی چوتھی اور جمادی الاول کی پہلی، ربیع الثانی کی چوتھی اور جمادی الاخریٰ کی پہلی، جمادی الاولی کی چوتھی اور رجب کی پہلی، جمادی الاخری کی چوتھی اور شعبان کی پہلی، ماہ رمضان کی چوتھی اور ذیقعدہ کی پہلی، شوال کی چوتھی اور ذی الحجہ کی پہلی ایک دن میں واقع ہو گی۔ مثلاً شوال کی چوتھی اگر جمعہ ہو تو ذی الحجہ کی پہلی جمعہ کے دن ہو گی۔ اسی طرح نصیر الدین طوسی رحمہ اللہ کی طرف یہ شعر منسوب ہے:
یدس چوں غرہ افتد بست و نہ دان
اگر چپیش آید جملہ بر خواں
’’یدس‘‘ سے مراد یک شنبہ، دو شنبہ اور سہ شنبہ ہے۔ ان دنوں میں اگر پہلی تاریخ ہو تو مہینہ انتیس کا ہو گا۔ اور ’’چپاش‘‘ سے مراد چہار شنبہ، پنج شنبہ، آدینہ (جمعہ) اور شنبہ ہے۔ ان دنوں میں اگر پہلی ہو تو پورے تیس دن کا ہو گا۔ والعلم عند اللہ!
قدرت نے اس چاند کے ذریعہ گو نا گوں فوائد و منافع کا سامان کیا ہے۔ اگرچہ اس کے فوائد و خواص کو اہل تحقیق ہی جانتے ہیں مگر کچھ فوائد تو وہ ہیں جن کا مشاہدہ ہر کس و نا کس کر سکتا ہے۔ چنانچہ ہر شخص یہ دیکھتا اور جانتا ہے کہ اس سے تاریک راتیں روشن و منور اور اس کی روشنی سے اشیاء کی نمود ہوتی ہے اور اس کے طلوع و غروب، عروج و زوال اور سیر و حرکت سے از منہ و اوقات منضبط ہوتے ہیں۔ جس سے کائنات میں ہم آہنگی اور زندگی کے ہر شعبہ میں نظم و ترتیب قائم ہوتی ہے۔ چنانچہ قدرت نے اس فائدہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿يَسْٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ﴾
اے پیغمبرؐ! تم سے لوگ (پہلی راتوں کے) چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہو کہ یہ انسان کیلئے وقت کا حساب رکھنے کیلئے ہیں۔ [۳]
اوقات کی حد بندی کا تصور انسان کے دل میں سورج کے طلوع و غروب سے پیدا ہوا۔ اس طرح کہ اس نے سورج کو نکلتے اور پھر اسے ڈوبتے دیکھا اور طلوع سے لے کر غروب تک کا وقت روشن اور غروب سے لے کر طلوع تک کا وقت تاریک پایا تو اس نے ایک طلوع سے لے کر دوسرے طلوع تک کا وقت دو حصوں پر تقسیم کر دیا۔ روشن حصہ کا نام ’’دن‘‘ ہوا اور تاریک حصہ کا نام ’’رات‘‘۔ اب اگر وقت کا حساب اسی شب و روز سے چلتا تو ایک پچاس سالہ شخص کو اپنی عمر کا حساب لگانے کیلئے اٹھارہ ہزار دو سو پچاس راتوں اور اٹھارہ ہزار دو سو پچاس دنوں کا حساب رکھنا پڑتا۔ اور اگر شب و روز کے مجموعہ سے حساب کرتا جب بھی اٹھارہ ہزار دو سو پچاس کے شمار کی ضرورت پڑتی۔ اور ظاہر ہے کہ اس طرح حساب و شمار نہایت دشوار ہوتا۔ اس دشواری کو اس نے چاند کے ذریعہ دور کیا۔ اس طرح کہ اس نے دیکھا کہ وہ ایک معین وقت پر نکلتا ہے اور تغیر و تبدل کے مختلف حالات سے گزرتا ہوا کچھ مدت کیلئے آنکھوں سے روپوش ہو جاتا ہے اور پھر اسی پہلی وضع و صورت کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں کبھی خلل رونما نہیں ہوتا، تو چاند کے دو طلوعوں کے درمیانی عرصہ سے ایک اور وقت کی حد بندی کر لی اور اس کا نام ’’مہینہ‘‘ تجویز کیا۔ اب پچاس سال کی مدت کیلئے اٹھارہ ہزار دو سو پچاس دنوں کو یاد رکھنے کے بجائے چھ سو مہینے ہی یاد رکھنا پڑے۔ پھر موسموں کے دورہ کرنے سے ایک اور مدت کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور اس نے دیکھا کہ ایک موسم کے شروع ہونے کے بعد دوبارہ اسی موسم کے آنے تک بارہ مرتبہ چاند طالع ہوتا ہے تو اس نے بارہ مہینوں کی ایک مدت تجویز کر لی اور اس کا نام ’’سال‘‘ ہوا۔ جب سالوں کے ذریعہ اوقات کی حد بندی ہونے لگی تو اوقات شماری کی تمام دشواریاں دور ہو گئیں۔
جن لوگوں نے سب سے پہلے تشکیل اوقات کی طرف توجہ کی، وہ اہل مصر تھے۔ چنانچہ آثار مصر کو دیکھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں وہ ایک مہینہ ظاہر کرنا چاہتے تھے وہاں ہلال کی شکل بنا دیتے تھے اور ۶۰۰ ق۔م انہوں نے اپنے تہواروں کے ناموں پر بارہ مہینوں کے نام رکھ کر سال کی حد بندی کر لی تھی اور یونان، روم، ہند اور عرب میں بھی قمری مہینوں کا حساب رائج تھا۔ جب اسلام کا ظہور ہوا تو اس نے بھی قمری حساب کو برقرار رکھا۔ اور قمری مہینوں ہی کے لحاظ سے سال کی تحدید کی اور مہینوں کو گھٹانے بڑھانے اور آگے پیچھے کرنے سے روک دیا۔ کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عرب اپنی مقصد برآری کیلئے امن و آشتی کے مہینہ کو مؤخر کر دیتے یا حج کے مہینہ کو پیچھے ڈال دیتے تھے۔ یہ سال سنہ ہجری کہلاتا ہے۔ کیونکہ اس کی ابتدا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مشورہ سے پیغمبر اکرم ﷺ کی ہجرت پر رکھی گئی تھی۔ اگرچہ ہجرت کا واقعہ ۲۷ صفر کو پیش آیا اور ۱۲ ربیع الاول کو آنحضرت ﷺ کا مدینہ میں ورود ہوا، مگر محرم کی اہمیت و شہرت اور شہر الحرام میں نمایاں ہونے کی وجہ سے اور بایں خیال کہ ہجرت کا ارادہ محرم ہی سے تھا، اسے سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔
اگرچہ قمری حساب سیدھا سادا اور ہر قسم کے پیچ و خم سے پاک ہے مگر اس میں یہ دشواری نظر آئی کہ اس کے ذریعہ فصلوں کی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ جو مہینہ آج سردی میں آ رہا ہے پھر گرمی میں آنا شروع ہو جائے گا اور جو خزاں میں آ رہا ہے وہ بہار میں آنے لگے گا۔ لہٰذا یہ نہ بتایا جا سکے گا کہ گرمی کے مہینےکون سے ہیں اور سردی کے کون سے، کس مہینے میں فصل کاشت ہو گی اور کس مہینے میں کاٹی جائے گی۔ اور مصریوں کو بھی یہی دقت پیش آئی، کیونکہ ان کی زندگی کا انحصار کھیتی باڑی پر تھا اور ایک برسات سے لے کر دوسری برسات تک انہوں نے بارہ مہینوں کا حساب لگایا تھا۔ مگر برسات تیرہ مہینوں کے بعد آنے لگی۔ اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی ایسی صورت ہونا چاہیے کہ گرما و سرما اور بہار و خزاں کے موسم کی حد بندی ہو جائے۔ چنانچہ فلکی مطالعہ نے انسان کی رہنمائی کی اور اس نے دیکھا کہ چاند ہر رات کسی نہ کسی ستارے کے پاس نظر آتا ہے اور چونکہ چاند کے نظر آنے کی راتیں اٹھائیس ہوتی ہیں، اس لئے اس نے ان ستاروں کو علامت قرار دے کر چاند کی اٹھائیس منزلیں قرار دے لیں۔ ان منزلوں کو ہندی میں ’’نچھتر‘‘ کہا جاتا ہے جو اسونی، بھرنی، کرتکا، روہنی وغیرہ کے ناموں سے مشہور ہیں اور عربی میں ان کے نام حسب ذیل ہیں:
شرطان، بطين، ثريا، وبران، هقعه، هنعه، ذراع، نثره، طرف، جبهه، زهره، صرفه، عواء، سماک الاعزل، غفر، زبانا، اکليل، قلب، شوله، نعائم، بلده، سعد، ذابح، سعد، بلع، سعدالسعود، سعدالاخبيه، فرغ المقدم، فرغ الموخر، رشاء۔
پھر اس نے دیکھا کہ منطقۃ البروج پر کئی ستاروں کے جھرمٹ ہیں جنہیں قاعدہ سے ملایا جائے تو بارہ مختلف شکلیں بن جاتی ہیں اور انہی شکلوں کے لحاظ سے ان کے نام رکھ لئے گئے۔ہندی میں انہیں ’’راس‘‘ اور عربی میں ’’برج‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہندی نام یہ ہیں: میکھ، برکھ، متھن، کرک، سنگھ، کنیا، تلا، برچھک، دھن، مکر، کنبھ، مین۔ اور اسی ترتیب سے عربی نام یہ ہیں: حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ پھر ان منزلوں کو 360 درجوں پر تقسیم کیا اور ہر منزل میں چاند کا قیام 12 درجہ اور تقریبا 51 دقیقہ اور ہر برج میں اس کا ٹھہراؤ دو دن آٹھ گھنٹہ قرار دیا۔ پھر یہ دیکھا کہ جس منزل کو چاند شبانہ روز میں طے کرتا ہے، سورج اسے تقریباً 13 دنوں میں تمام کرتا ہے جس سے منزلوں کے دن 364 بنتے ہیں، لیکن سورج اس مقام پر جہاں سے چلا تھا 365 دنوں میں پہنچتا ہے۔ اس طرح کہ حمل، ثور، سرطان، اسد اور سنبلہ میں 31، 31 دن، جوزا میں 32 دن، میزان، عقرب، دلو اور حوت میں 30، 30 دن اور قوس و جدی میں 29، 29 دن صرف کرتا ہے۔ تو انہوں نے ایام منازل کو دورۂ شمسی کے دنوں سے مطابق کرنے کیلئے منزل غفر میں ایک دن کا اضافہ کرکے 365 دن کا سال مقرر کر لیا اور موسموں کو ان منزلوں پر تقسیم کرکے فصول اربعہ کی حد بندی کر لی اور اسے ’’شمسی سال‘‘ سے تعبیر کیا جانے لگا۔
اور بعض ملکوں میں شمسی سال کے باوجود مہینوں کا حساب قمری ہی رہا، حالانکہ قمری حساب سے سال کی مدت 354 دن 8 گھنٹے 48 منٹ 32 سیکنڈ ہوتی ہے، کیونکہ قمری مہینہ 29 دن یا 30 دن کا ہوتا ہے۔ اگرچہ چاند 27 دن 7 گھنٹہ 43 منٹ کی مدت میں سمت متقابل کی طرف حرکت کرتا ہوا زمین کے گرد اپنا دورہ مکمل کر لیتا ہے، لیکن حرکت ارضی کی وجہ سے چاند کے سفر میں 2 دن 21 اعشاریہ کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اسے اپنا سفر تمام کرنے کیلئے 29 دن 12 گھنٹہ 43 منٹ 16 سیکنڈ کی مدت درکار ہوتی ہے۔ اس بنا پر وہ کبھی 29 دن کے بعد نظر آتا ہے اور کبھی 30 دن کے بعد۔ اور اسی رویت پر مہینوں کی مدت کا انحصار ہے۔ اور شمسی سال کی مدت 365 دن 5 گھنٹہ 48 منٹ 46 سیکنڈ ہوتی ہے۔ اس لئے قمری سال 10 دن 21 گھنٹے 14 سیکنڈ شمسی سال سے چھوٹا ہو گا اور ہر سو سال کے بعد شمسی سال سے تین سال آگے بڑھ جائے گا۔
چنانچہ اہل کتاب میں سے ایک شخص نے امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ قرآن میں اصحاب کہف کے متعلق ہے کہ: ﴿وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۲۵﴾ [۳]: (وہ غار میں تین سو برس ٹھہرے اور لوگوں نے نو برس اور بڑھا دیئے) اور ہمارے ہاں کی کتاب میں صرف تین سو برس کا ذکر ہے، یہ اختلاف کیوں ہے؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ: یونانیوں کے تین سو برس عربوں کے تین سو نو سالوں کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ جب ہر سو سال میں تین سال کا اضافہ ہو گا تو تین سو سالوں کے بعد نو سالوں کا اضافہ ہونا ہی چاہیے۔
جن ممالک میں مہینوں کی مدت شمسی سال سے کم ہوتی ہے، وہ ان میں دنوں کا اضافہ کرکے اسے شمسی سال سے مطابق کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اہل ہند اپنے مہینوں کا حساب چاند سے کرتے ہیں۔ اس طرح کہ ’’پروا‘‘ یعنی چاند کے انحطاط سے مہینہ کا آغاز کرتے ہیں اور ’’پورنماشی‘‘ یعنی چاند کے مکمل ہو جانے پر ختم کر دیتے ہیں۔ اور ہر تیسرے سال ایک مہینہ کا اضافہ کرکے اپنے سال کو شمسی سال کے مطابق کر لیتے ہیں۔ ترکوں کے مہینے بھی شمار میں قمری مہینوں کے برابر ہوتے ہیں۔ وہ شمس و قمر کے اتصال سے ابتدا کرتے ہیں اور ہر تیسرے سال ایک ماہ کا اضافہ کر لیتے ہیں۔ اہل فارس اپنے سال کی ابتدا تحویل آفتاب سے کرتے ہیں۔ ان کے مہینوں کے نام یہ ہیں: فروردين، اردیبہشت، خرداد، تیر، مرداد، شہریور، مہر، ابان، آذر، دی، بہمن، اسفند۔
یہ تمام مہینے 30، 30 دن کے ہوتے ہیں جس سے سال کے 360 دن بنتے ہیں، لیکن وہ اسفندارند کے آخر میں 5 دنوں کا اضافہ کرکے شمسی سال کے مطابق کر لیتے ہیں اور 120 سال کے بعد ایک مہینہ کا اضافہ کرکے بقایا کمی کو پورا کر لیتے ہیں۔ اس زائد مہینہ کو ہندی میں ’’لوند‘‘، ترکی میں ’’سوا آئی‘‘ اور فارسی میں ’’کبیسہ‘‘ کہتے ہیں۔
روم میں مہینوں کا حساب چاند سے اور سال کا حساب سورج سے لگایا جاتا تھا۔ جب روم میں جولیس سیزر حکمران ہوا تو اس نے 45 ق۔م میں دو ہیئت دانوں کی مدد سے سال کی مدت 365 دن 6 گھنٹہ مقرر کی۔ اس طرح کہ فروری کے 29 دن اور باقی مہینوں میں ایک مہینہ تیس دن کا اور دوسرا 31 دن کا قرار دیا۔ اور چھ گھنٹوں کی کھپت کیلئے ہر چوتھے سال فروری میں ایک دن کا اضافہ کر دیا اور اپنے نام پر جون کے بعد والے مہینے کا نام ’’جولائی‘‘ رکھا۔ اس کے بعد اگسٹس نے جولائی کے بعد والے مہینے کا نام اپنے نام پر ’’اگست‘‘ رکھا اور فروری سے ایک دن نکال کر اس میں بڑھا دیا۔ یہ حساب صدیوں چلتا رہا، لیکن سال کی مدت چونکہ 365 دن 6 گھنٹہ تھی، اس لئے 400 سال کے عرصہ میں تحویل آفتاب میں 3 دن کا فرق پڑ گیا۔ چنانچہ جب 325ء میں روم کے ہیئت دان اس مسئلہ پر غور کرنے کیلئے جمع ہوئے تو اس سال تحویل آفتاب 21 مارچ کو تھی، حالانکہ 45 ق۔م جب یہ سال رائج ہوا تھا تو تحویل آفتاب 25 مارچ کو تھی۔ انہوں نے بتایا کہ شمسی سال کی صحیح مدت چونکہ 365 دن 5 گھنٹہ 48 منٹ 46 سیکنڈ ہے اور ملکی سال کا شمار 365 دن 6 گھنٹہ کے حساب سے ہوتا رہا ہے اور ملکی سال، شمسی سال سے 11 منٹ 14 سیکنڈ آگے بڑھتا رہا ہے اس لئے یہ فرق پڑ گیا ہے۔ مگر اس کی تصحیح کی کوئی تدبیر نہ کر سکے۔
آخر 1582ء میں پاپائے اعظم گریگری نے اس کی طرف توجہ کی اور گزشتہ سالوں میں جو دس دن زیادہ شمار ہوئے تھے کم کر دیئے اور آئندہ کیلئے ہر تین سال کے دن 365 اور چوتھے سال کے دن 366 قرار دیئے تا کہ ان چار سالوں میں ہر سال جو 5 گھنٹے 48 منٹ 46 سیکنڈ زائد ہوتے ہیں ان کی کھپت ہو جائے۔ مگر جب یہ دیکھا گیا کہ اس سے بھی کچھ فرق پڑتا ہے اس طرح کہ کمی تو چار سالوں میں 23 گھنٹے 15 منٹ 4 سیکنڈ کی ہوئی ہے اور اضافہ ایک دن کی صورت میں 24 گھنٹے کا کیا گیا ہے جس سے 400 سال میں 3 دن کا فرق پڑ جاتا ہے، اس لئے پوری صدی والے سالوں میں صرف اس سال میں اضافہ باقی رکھا گیا جو 400 پر پورا تقسیم ہو جائے تا کہ یہ بڑھنے والے تین دن کم ہو جائیں، لیکن اس صورت میں بھی 26 سیکنڈ ہر سال میں بڑھ جاتے ہیں جو 3323 سال میں ایک دن کے مساوی ہو جائیں گے، اس کے تدارک کی یہ صورت نکالی گئی کہ جو سال 4000 پر پورا تقسیم ہو جائے اس میں ایک دن کا اضافہ نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ ایک دن تو 3323 سالوں میں بڑھتا تھا اور کمی چار ہزار سال میں ایک دن کی تجویز ہوئی تو اس کے نتیجہ میں بیس ہزار سالوں میں ایک دن پھر بڑھ جائے گا، مگر اس کے حل کی ابھی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ جس سال میں ایک دن کا اضافہ کیا جاتا ہے اس کے پہچاننے کا حسابی طریقہ یہ ہے کہ سنہ عیسوی کو چار پر تقسیم کر دیا جائے۔ اگر ایک باقی رہے تو 365 دن والا پہلا سال، دوباقی رہیں تو دوسرا، تین باقی رہیں تو تیسرا، اور پورا تقسیم ہو جائے تو وہ 366 دنوں کا سال ہو گا۔ ایسے سال کو ’’لیپ کا سال‘‘ کہا جاتا ہے۔
بہرحال اس بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ ملکی سال کبھی شمسی سال سے گھٹ جاتا ہے اور کبھی بڑھ جاتا ہے اور ہر چوتھے سال ایک دن کے اضافہ کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور پھر بھی تفاوت رہ جاتا ہے۔ اور پھر اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو علم فلکیات میں مہارت رکھتا ہو۔ بخلاف قمری حساب کے کہ وہ گھٹائے بڑھائے بغیر بالکل قدرتی حالت میں ہے اور ہر شخص بآسانی معلوم کر لیتا ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق عام مشاہدہ سے ہے۔ اس لئے اسلام نے اعمال و عبادات کی بنیاد زیادہ تر قمری حساب پر رکھی ہے تا کہ تعیین اوقات میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور جو سورج سے متعلق ہیں جیسے افطار صوم یا اوقات نماز یا نماز آیات تو ان کا تعلق صرف سورج کے مشاہدہ یعنی طلوع و غروب و زوال اور کسوف سے ہے جس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ البتہ کچھ امور ایسے ہیں جو شمسی حساب سے متعلق ہیں مگر وہ اعمال واجبہ پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ جیسے نوروز، کیونکہ جس دن غدیر خم میں اعلان خلافت علوی ہوا اور جس دن امیرالمومنین علیہ السلام زینت افزائے سریر خلافت ہوئے، آفتاب برج حمل میں تھا۔ اسی لئے اس دن کی مسرت کو دو چند کرنے کیلئے قمری و شمسی دونوں تاریخوں کو یوم مسرت قرار دیا گیا۔ اسی طرح نوروز کے 23 دن بعد نیسان کا مہینہ شروع ہوتا ہے جس میں برسنے والے پانی پر مختلف سورتیں اور دُعائیں پڑھ کر پینے سے مختلف فوائد و خواص کا تذکرہ روایات میں ہوا ہے۔ یونہی امام جعفر صادق علیہ السلام نے ماہ حریزان کی ساتویں تاریخ کو پچھنے لگوانے سے منع کیا ہے اور امام رضا علیہ السلام سے شمسی مہینوں کے لحاظ سے ہر مہینہ کے کچھ اصولِ صحت وارد ہوئے ہیں۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ یونس، آیت ۵
[۲]۔ ریاض السالکین، ج ۲، ص ۲۰۹-۲۱۰
[۳]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۸۹
[۴]۔ سورۂ کہف، آیت ۲۵