صحیفہ کاملہ

45۔ وداع ماہ رمضان کی دعا

(۴۵) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِیْ وَدَاعِ شَهْرِ رَمَضَانَ

دُعائے وداع ماہ رمضان:

اَللّٰهُمَّ یَا مَنْ لَّا یَرْغَبُ فِی الْجَزَآءِ، وَ یَا مَنْ لَّا یَنْدَمُ عَلَى الْعَطَآءِ، وَ یَا مَنْ لَّا یُكَافِئُ عَبْدَهٗ عَلَى السَّوَآءِ، مِنَّتُكَ ابْتِدَآءٌ، وَ عَفْوُكَ تَفَضُّلٌ، وَ عُقُوْبَتُكَ عَدْلٌ، وَ قَضَآؤُكَ خِیَرَةٌ، اِنْ اَعْطَیْتَ لَمْ تَشُبْ عَطَآءَكَ بِمَنٍّ، وَ اِنْ مَّنَعْتَ لَمْ یَكُنْ مَّنْعُكَ تَعَدِّیًا.

اے اللہ! اے وہ جو (اپنے احسانات کا) بدلہ نہیں چاہتا، اے وہ جو عطا و بخشش پرپشیمان نہیں ہوتا، اے وہ جو اپنے بندوں کو (ان کے عمل کے مقابلہ میں) نپا تلا اجر نہیں دیتا، تیری نعمتیں بغیر کسی سابقہ استحقاق کے ہیں، اور تیرا عفو و درگزر تفضل و احسان ہے، تیرا سزا دینا عین عدل اور تیرا فیصلہ خیر و بہبودی کا حامل ہے، تو اگر دیتا ہے تو اپنی عطا کو منت گزاری سے آلودہ نہیں کرتا، اور اگر منع کر دیتا ہے تو یہ ظلم و زیادتی کی بنا پر نہیں ہوتا،

تَشْكُرُ مَنْ شَكَرَكَ وَ اَنْتَ اَلْهَمْتَهٗ شُكْرَكَ، وَ تُكَافِئُ مَنْ حَمِدَكَ وَ اَنْتَ عَلَّمْتَهٗ حَمْدَكَ، تَسْتُرُ عَلٰى مَنْ لَّوْ شِئْتَ فَضَحْتَهٗ، وَ تَجُوْدُ عَلٰى مَنْ لَّوْ شِئْتَ مَنَعْتَهٗ، وَ كِلَاهُمَاۤ اَهْلٌ مِّنْكَ لِلْفَضِیْحَةِ وَ الْمَنْعِ، غَیْرَ اَنَّكَ بَنَیْتَ اَفْعَالَكَ عَلَى التَّفَضُّلِ، وَ اَجْرَیْتَ قُدْرَتَكَ عَلَى التَّجَاوُزِ، وَ تَلَقَّیْتَ مَنْ عَصَاكَ بِالْحِلْمِ، وَ اَمْهَلْتَ مَنْ قَصَدَ لِنَفْسِهٖ بِالظُّلْمِ، تَسْتَنْظِرُهُمْ بِاَنَاتِكَ اِلَى الْاِنَابَةِ، وَ تَتْرُكُ مُعَاجَلَتَهُمْ اِلَى التَّوْبَةِ لِكَیْلَا یَهْلِكَ عَلَیْكَ هَالِكُهُمْ، وَ لَا یَشْقٰى بِنِعْمَتِكَ شَقِیُّھُمْ اِلَّا عَنْ طُوْلِ الْاِعْذَارِ اِلَیْهِ، وَ بَعْدَ تَرَادُفِ الْحُجَّةِ عَلَیْهِ، كَرَمًا مِّنْ عَفْوِكَ یَا كَرِیْمُ، وَ عَآئِدَةً مِّنْ عَطْفِكَ یَا حَلِیْمُ.

جو تیرا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکر کی جزا دیتا ہے حالانکہ تو ہی نے اس کے دل میں شکر گزاری کا القا کیا ہے،اور جو تیری حمد کرتا ہے اسے بدلہ دیتا ہے حالانکہ تو ہی نے اسے حمد کی تعلیم دی ہے، اور ایسے شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے کہ اگر چاہتا تو اسے رسوا کر دیتا، اور ایسے شخص کو دیتا ہے کہ اگر چاہتا تو اسے نہ دیتا، حالانکہ وہ دونوں تیری بارگاہ عدالت میں رسوا و محروم کئے جانے ہی کے قابل تھے، مگر تو نے اپنے افعال کی بنیاد تفضل و احسان پر رکھی ہے، اور اپنے اقتدار کو عفو و درگزر کی راہ پر لگایا ہے، اور جس کسی نے تیری نافرمانی کی تو نے اس سے بردباری کا رویہ اختیار کیا، اور جس کسی نے اپنے نفس پر ظلم کا ارادہ کیا تو نے اسے مہلت دی، تُو ان کے رجوع ہونے تک اپنے حلم کی بنا پر مہلت دیتا ہے، اور توبہ کرنے تک انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، تاکہ تیری منشاء کے خلاف تباہ ہونے والا تباہ نہ ہو، اور تیری نعمت کی وجہ سے بدبخت ہونے والا بدبخت نہ ہو، مگر اس وقت کہ جب اس پر پوری عذرداری اور اتمام حجت ہو جائے اے کریم! (یہ اتمام جحت) تیرے عفو و درگزر کا کرم اور اے بردبار! تیری شفقت و مہربانی کا فیض ہے۔

اَنْتَ الَّذِیْ فَتَحْتَ لِعِبَادِكَ بَابًا اِلٰى عَفْوِكَ، وَ سَمَّیْتَهٗ التَّوْبَةَ، وَ جَعَلْتَ عَلٰى ذٰلِكَ الْبَابِ دَلِیْلًا مِّنْ وَحْیِكَ لِئَلَّا یَضِلُّوْا عَنْهُ، فَقُلْتَ- تَبَارَكَ اسْمُكَ-: ﴿تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا عَسٰی رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۙ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۚ نُوْرُهُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝﴾، فَمَا عُذْرُ مَنْ اَغْفَلَ دُخُوْلَ ذٰلِكَ الْمَنْزِلِ بَعْدَ فَتْحِ الْبَابِ وَ اِقَامَةِ الدَّلِیْلِ!.

تو ہی ہے وہ جس نے اپنے بندوں کیلئے عفو و بحشش کا دروازہ کھولا ہے اور اس کا نام توبہ رکھا ہے، اور تو نے اس دروازہ کی نشاندہی کیلئے اپنی وحی کو رہبر قرار دیا ہے تاکہ وہ اس دروازہ سے بھٹک نہ جائیں، چنانچہ اے مبارک نام والے تو نے فرمایا ہے کہ: ”خدا کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو محو کر دے اور تمہیں اس بہشت میں داخل کرے جس کے (محلاّت و باغات کے) نیچے نہریں بہتی ہیں، اس دن جب خدا اپنے رسولؐ اور ان لوگوں کو جو اس پر ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا بلکہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب چلتا ہو گا اور وہ لوگ یہ کہتے ہوں گے کہ: اے ہمارے پروردگار! ہمارے لئے ہمارے نور کو کامل فرما اور ہمیں بخش دے، اس لئے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے“۔ تو اب جو اس گھر میں داخل ہونے سے غفلت کرے جبکہ دروازہ کھولا اور رہبر مقرر کیا جاچکا ہے تو اس کا عذر و بہانہ کیا ہو سکتا ہے؟

وَ اَنْتَ الَّذِیْ زِدْتَّ فِی السَّوْمِ عَلٰى نَفْسِكَ لِعِبَادِكَ، تُرِیْدُ رِبْحَهُمْ فِیْ مُتَاجَرَتِهِمْ لَكَ، وَ فَوْزَهُمْ بِالْوِفَادَةِ عَلَیْكَ، وَ الزِّیَادَةِ مِنْكَ، فَقُلْتَ- تَبَارَكَ اسْمُكَ وَ تَعَالَیْتَ-: ﴿مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤی اِلَّا مِثْلَهَا﴾، وَ قُلْتَ: ﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾، وَ قُلْتَ: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً﴾، وَ مَاۤ اَنْزَلْتَ مِنْ نَظَآئِرِهِنَّ فِی الْقُرْاٰنِ مِنْ تَضَاعِیْفِ الْحَسَنَاتِ.

تو وہ ہے جس نے اپنے بندوں کیلئے لین دین میں اونچے نرخوں کا ذمہ لے لیا ہے، اور یہ چاہا ہے کہ وہ جو سودا تجھ سے کریں اس میں انہیں نفع ہو، اور تیری طرف بڑھنے اور زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں، چنانچہ تو نے کہ جو مبارک نام والا اور بلند مقام والا ہے فرمایا ہے: ”جو میرے پاس نیکی لے کر آئے گا اسے اس کا دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کا مرتکب ہو گا تو اس کو برائی کا بدلہ بس اتنا ہی ملے گا جتنی بُرائی ہے“، اور تیرا ارشاد ہے کہ: ”جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس بیج کی سی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کیلئے چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے“، اور تیرا ارشاد ہے کہ: ”کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے تاکہ خدا اس کے مال کو کئی گنا زیادہ کر کے ادا کرے“ اور ایسی ہی افزائش حسنات کے وعدہ پر مشتمل دوسری آیتیں کہ جو تو نے قرآن مجید میں نازل کی ہیں۔

وَ اَنْتَ الَّذِیْ دَلَلْتَهُمْ بِقَوْلِكَ مِنْ غَیْبِكَ وَ تَرْغِیبِكَ الَّذِیْ فِیْهِ حَظُّهُمْ عَلٰى مَا لَوْ سَتَرْتَهٗ عَنْهُمْ لَمْ تُدْرِكْهُ‏ اَبْصَارُهُمْ، وَ لَمْ تَعِهٖ اَسْمَاعُهُمْ، وَ لَمْ تَلْحَقْهُ اَوْهَامُهُمْ، فَقُلْتَ: ﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠۝﴾، وَ قُلْتَ: ﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ۝﴾، وَ قُلْتَ: ﴿ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠۝﴾.

اور تو ہی وہ ہے جس نے وحی و غیب کے کلام اور ایسی ترغیب کے ذریعہ کہ جو ان کے فائدہ پر مشتمل ہے ایسے امور کی طرف ان کی رہنمائی کی کہ اگر ان سے پوشیدہ رکھتا تو نہ ان کی آنکھیں دیکھ سکتیں، نہ ان کے کان سن سکتے، اور نہ ان کے تصورات وہاں تک پہنچ سکتے۔ چنانچہ تیرا ارشاد ہے کہ: ”تم مجھے یاد رکھو! میں بھی تمہاری طرف سے غافل نہیں ہوں گا اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو“ اور تیرا ارشاد ہے کہ: ”اگر میرا شکر کرو گے تو میں یقینا تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کی تو یاد رکھو کہ میرا عذاب سخت عذاب ہے “اور تیرا ارشاد ہے کہ: ”مجھ سے دُعا مانگو تو میں قبول کروں گا، وہ لوگ جو غرور کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑ لیتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے“۔

فَسَمَّیْتَ دُعَآءَكَ عِبَادَةً، وَ تَرْكَهُ اسْتِكْبَارًا، وَ تَوَعَّدْتَّ عَلٰى تَرْكِهٖ دُخُوْلَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَ، فَذَكَرُوْكَ بِمَنِّكَ، وَ شَكَرُوْكَ بِفَضْلِكَ، وَ دَعَوْكَ بِاَمْرِكَ، وَ تَصَدَّقُوْا لَكَ طَلَبًا لِّمَزِیْدِكَ، وَ فِیْهَا كَانَتْ نَجَاتُهُمْ مِنْ غَضَبِكَ، وَ فَوْزُهُمْ بِرِضَاكَ، وَ لَوْ دَلَّ مَخْلُوْقٌ مَّخْلُوْقًا مِّنْ نَفْسِهٖ عَلٰى مِثْلِ الَّذِیْ دَلَلْتَ عَلَیْهِ عِبَادَكَ مِنْكَ كَانَ مَحْمُودًا، فَلَكَ الْحَمْدُ مَا وُجِدَ فِیْ حَمْدِكَ مَذْهَبٌ، وَ مَا بَقِیَ لِلْحَمْدِ لَفْظٌ تُحْمَدُ بِهٖ، وَ مَعْنًى یَّنْصَرِفُ اِلَیْهِ.

چنانچہ تو نے دُعا کا نام عبادت رکھا اور اس کے ترک کو غرور سے تعبیر کیا اور اس کے ترک پر جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہونے سے ڈرایا۔ اس لئے انہوں نے تیری نعمتوں کی وجہ سے تجھے یاد کیا، تیرے فضل و کرم کی بنا پر تیرا شکریہ ادا کیا، اور تیرے حکم سے تجھے پکارا، اور (نعمتوں میں) طلب افزائش کیلئے تیری راہ میں صدقہ دیا، اور تیری یہ رہنمائی ہی ان کیلئے تیرے غضب سے بچاؤ اور تیری خوشنودی تک رسائی کی صورت تھی، اور جن باتوں کی تو نے اپنی جانب سے اپنے بندوں کی رہنمائی کی ہے، اگر کوئی مخلوق اپنی طرف سے دوسرے مخلوق کی ایسی ہی چیزوں کی طرف رہنمائی کرتا تو وہ قابل تحسین ہوتا، تو پھر تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے، جب تک تیری حمد کیلئے راہ پیدا ہوتی رہے، اور جب تک حمد کے وہ الفاظ جن سے تیری تحمید کی جا سکے، اور حمد کے وہ معنی جو تیری حمد کی طرف پلٹ سکیں باقی رہیں۔

یَا مَنْ تَحَمَّدَ اِلٰى عِبَادِهٖ بِالْاِحْسَانِ وَ الْفَضْلِ، وَ غَمَرَهُمْ بِالْمَنِّ وَ الطَّوْلِ، مَاۤ اَفْشٰى فِیْنَا نِعْمَتَكَ، وَ اَسْبَغَ عَلَیْنَا مِنَّتَكَ، وَ اَخَصَّنَا بِبِرِّكَ! هَدَیْتَنَا لِدِیْنِكَ الَّذِی اصْطَفَیْتَ، وَ مِلَّتِكَ الَّتِی ارْتَضَیْتَ، وَ سَبِیْلِكَ الَّذِیْ سَهَّلْتَ، وَ بَصَّرْتَنَا الزُّلْفَةَ لَدَیْكَ، وَ الْوُصُوْلَ اِلٰى كَرَامَتِكَ.

اے وہ جو اپنے فضل و احسان سے بندوں کی حمد کا سزاوار ہوا ہے اور انہیں اپنی نعمت و بخشش سے ڈھانپ لیا ہے، ہم پر تیری نعمتیں کتنی آشکارا ہیں، اور تیرا انعام کتنا فراواں ہے، اور کس قدر ہم تیرے انعام و احسان سے مخصوص ہیں، تو نے اس دین کی جسے منتخب فرمایا، اور اس طریقہ کی جسے پسند فرمایا، اور اس راستہ کی جسے آسان کر دیا، ہمیں ہدایت کی، اور اپنے ہاں قرب حاصل کرنے اور عزت و بزرگی تک پہنچنے کیلئے بصیرت دی۔

اَللّٰهُمَّ وَ اَنْتَ جَعَلْتَ مِنْ صَفَایَا تِلْكَ الْوَظَآئِفِ، وَ خَصَآئِصِ تِلْكَ الْفُرُوْضِ شَهْرَ رَمَضَانَ الَّذِی اخْتَصَصْتَهٗ مِنْ سَآئِرِ الشُّهُوْرِ، وَ تَخَیَّرْتَهٗ مِنْ جَمِیْعِ الْاَزْمِنَةِ وَ الدُّهُوْرِ، وَ اٰثَرْتَهٗ عَلٰى كُلِّ اَوْقَاتِ السَّنَةِ بِمَاۤ اَنْزَلْتَ فِیْهِ مِنَ الْقُرْاٰنِ وَ النُّوْرِ، وَ ضَاعَفْتَ فِیْهِ مِنَ الْاِیْمَانِ، وَ فَرَضْتَ فِیْهِ مِنَ الصِّیَامِ، وَ رَغَّبْتَ فِیْهِ مِنَ الْقِیَامِ، وَ اَجْلَلْتَ فِیْهِ مِنْ لَّیْلَةِ الْقَدْرِ الَّتِیْ هِیَ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.

بارالٰہا! تو نے ان منتخب فرائض اور مخصوص واجبات میں سے ماہ رمضان کو قرار دیا ہے، جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا، اور تمام وقتوں اور زمانوں میں اسے منتخب فرمایا ہے، اور اس میں قرآن اور نور کو نازل فرما کر اور ایمان کو فروغ و ترقی بخش کر اسے سال کے تمام اوقات پر فضیلت دی، اور اس میں روزے واجب کئے اور نمازوں کی ترغیب دی، اور اس میں شب قدر کو بزرگی بخشی جو خود ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

ثُمَّ اٰثَرْتَنَا بِهٖ عَلٰى سَآئِرِ الْاُمَمِ، وَ اصْطَفَیْتَنَا بِفَضْلِهٖ دُوْنَ اَهْلِ الْمِلَلِ، فَصُمْنَا بِاَمْرِكَ نَهَارَهٗ، وَ قُمْنَا بِعَوْنِكَ لَیْلَهٗ، مُتَعَرِّضِیْنَ بِصِیَامِهٖ وَ قِیَامِهٖ لِمَا عَرَّضْتَنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِكَ، وَ تَسَبَّبْنَاۤ اِلَیْهِ مِنْ مَثُوْبَتِكَ، وَ اَنْتَ الْمَلِیْٓ‏ءُ بِمَا رُغِبَ فِیْهِ اِلَیْكَ، الْجَوَادُ بِمَا سُئِلْتَ مِنْ فَضْلِكَ، الْقَرِیْبُ اِلٰى مَنْ حَاوَلَ قُرْبَكَ.

پھر اس مہینہ کی وجہ سے تو نے ہمیں تمام امتوں پر ترجیح دی، اور دوسری امتوں کے بجائے ہمیں اس کی فضیلت کے باعث منتخب کیا، چنانچہ ہم نے تیرے حکم سے اس کے دنوں میں روزے رکھے اور تیری مدد سے اس کی راتیں عبادت میں بسر کیں، اس حالت میں کہ ہم اس روزہ نماز کے ذریعہ تیری اس رحمت کے خواستگار تھے جس کا دامن تو نے ہمارے لئے پھیلایا ہے، اور اسے تیرے اجر و ثواب کا وسیلہ قرار دیا، اور تو ہر اس چیز کے عطا کرنے پر قادر ہے جس کی تجھ سے خواہش کی جائے، اور ہر اس چیز کا بخشنے والا ہے جس کا تیرے فضل سے سوال کیا جائے، تو ہر اس شخص سے قریب ہے جو تجھ سے قرب حاصل کرنا چاہے۔

وَ قَدْ اَقَامَ فِیْنَا هٰذَا الشَّهْرُ مُقَامَ حَمْدٍ، وَ صَحِبَنَا صُحْبَةَ مَبْرُوْرٍ، وَ اَرْبَحَنَاۤ اَفْضَلَ اَرْبَاحِ الْعٰلَمِیْنَ، ثُمَّ قَدْ فَارَقَنَا عِنْدَ تَمَامِ وَقْتِهٖ، وَ انْقِطَاعِ مُدَّتِهٖ، وَ وَفَآءِ عَدَدِهٖ.

اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے، اور اچھی طرح حق رفاقت ادا کیا، اور دنیا جہان کے بہترین فائدوں سے ہمیں مالا مال کیا، پھر جب اس کا زمانہ ختم ہو گیا، مدت بیت گئی اور گنتی تمام ہو گئی تو وہ ہم سے جدا ہو گیا۔

فَنَحْنُ مُوَدِّعُوْهُ وِدَاعَ مَنْ عَزَّ فِرَاقُهٗ عَلَیْنَا، وَ غَمَّنَا وَ اَوْحَشَنَا انْصِرَافُهٗ عَنَّا، وَ لَزِمَنَا لَهُ الذِّمَامُ الْمَحْفُوْظُ، وَ الْحُرْمَةُ الْمَرْعِیَّةُ، وَ الْحَقُّ الْمَقْضِیُّ، فَنَحْنُ قَآئِلُوْنَ:

اب ہم اسے رخصت کرتے ہیں اس شخص کے رخصت کرنے کی طرح جس کی جدائی ہم پر شاق ہو، اور جس کا جانا ہمارے لئے غم افزا اور وحشت انگیز ہو، اور جس کے عہد و پیمان کی نگہداشت عزت و حرمت کا پاس اور اس کے واجب الاداء حق سے سبکدوشی از بس ضروری ہو۔ اس لئے ہم کہتے ہیں:

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا شَهْرَ اللّٰهِ الْاَكْبَرَ، وَ یَا عِیْدَ اَوْلِیَآئِهٖ.

اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے، تجھ پر سلام! اے دوستان خدا کی عید تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَاۤ اَكْرَمَ مَصْحُوْبٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ، وَ یَا خَیْرَ شَهْرٍ فِی الْاَیَّامِ وَ السَّاعَاتِ.

اے اوقات میں بہترین رفیق اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ شَهْرٍ قَرُبَتْ فِیْهِ الْاٰمَالُ، وَ نُشِرَتْ فِیْهِ الْاَعْمَالُ.

اے وہ مہینے جس میں امیدیں بر آتی ہیں اور اعمال کی فروانی ہوتی ہے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ قَرِیْنٍ جَلَّ قَدْرُهٗ مَوْجُوْدًا، وَ اَفْجَعَ فَقْدُهٗ مَفْقُوْدًا، وَ مَرْجُوٍّ اٰلَمَ فِرَاقُهٗ.

اے وہ ہم نشین کہ جو موجود ہو تو اس کی بڑی قدرو منزلت ہوتی ہے، اور نہ ہونے پر بڑا دکھ ہوتا ہے، اور اے وہ سر چشمہ امید و رجا جس کی جدائی الم انگیز ہے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ اَلِیْفٍ اٰنَسَ مُقْبِلًا فَسَرَّ، وَ اَوْحَشَ مُنْقَضِیًا فَمَضَّ.

اے وہ ہمدم جو انس و دل بستگی کا سامان لئے ہوئے آیا تو شادمانی کا سبب ہوا اور واپس گیا تو وحشت بڑھا کر غمگین بنا گیا، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ مُّجَاوِرٍ رَقَّتْ فِیْهِ الْقُلُوْبُ، وَ قَلَّتْ فِیْهِ الذُّنُوْبُ.

اے وہ ہمسائے جس کی ہمسائیگی میں دل نرم اور گناہ کم ہو گئے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ نَاصِرٍ اَعَانَ عَلَى الشَّیْطٰنِ، وَ صَاحِبٍ سَهَّلَ سُبُلَ الْاِحْسَانِ.

اے وہ مددگار جس نے شیطان کے مقابلہ میں مدد و اعانت کی، اے وہ ساتھی جس نے حسن عمل کی راہیں ہموار کیں، تجھ پر سلام!

السَّلَامُ عَلَیْكَ مَاۤ اَكْثَرَ عُتَقَآءَ اللّٰهِ فِیْكَ، وَ مَاۤ اَسْعَدَ مَنْ رَّعٰى حُرْمَتَكَ بِكَ!.

(اے ماہ رمضان) تجھ میں اللہ تعالیٰ کے آزاد کئے ہوئے بندے کس قدر زیادہ ہیں، اور جنہوں نے تیری حرمت و عزت کا پاس و لحاظ رکھا وہ کتنے خوش نصیب ہیں، تجھ پر سلام!

السَّلَامُ عَلَیْكَ مَا كَانَ اَمْحَاكَ لِلذُّنُوْبِ، وَ اَسْتَرَكَ لِاَنْوَاعِ الْعُیُوْبِ.

تو کس قدر گناہوں کو محو کرنے والا اور قسم قسم کے عیبوں کو چھپانے والا ہے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مَا كَانَ اَطْوَلَكَ عَلَى الْمُجْرِمِیْنَ، وَ اَهْیَبَكَ فِیْ صُدُوْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ!.

تو گنہگاروں کیلئے کتنا طویل اور مومنوں کے دلوں میں کتنا پر ہیبت ہے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ شَهْرٍ لَّا تُنَافِسُهُ الْاَیَّامُ.

اے وہ مہینے جس سے دوسرے ایام ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ شَهْرٍ هُوَ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ.

اے وہ مہینے جو ہر امر سے سلامتی کا باعث ہے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ غَیْرَ كَرِیْهِ الْمُصَاحَبَةِ، وَ لَا ذَمِیْمِ الْمُلَابَسَةِ.

اے وہ جس کی ہم نشینی بار خاطر اور معاشرت ناگوار نہیں، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ كَمَا وَفَدْتَّ عَلَیْنَا بِالْبَرَكَاتِ، وَ غَسَلْتَ عَنَّا دَنَسَ الْخَطِیْٓـئَاتِ.

جبکہ تو برکتوں کے ساتھ ہمارے پاس آیا اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھو دیا، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ غَیْرَ مُوَدَّعٍ بَرَمًا وَّ لَا مَتْرُوْكٍ صِیَامُهٗ سَاَمًا.

اے وہ جسے دل تنگی کی وجہ سے رخصت نہیں کیا گیا اور نہ خستگی کی وجہ سے اس کے روزے چھوڑے گئے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مِنْ مَّطْلُوْبٍ قَبْلَ وَقْتِهٖ، وَ مَحْزُوْنٍ عَلَیْهِ قَبْلَ فَوْتِهٖ.

اے وہ کہ جس کے آنے کی پہلے سے خواہش تھی اور جس کے ختم ہونے سے قبل ہی دل رنجیدہ ہیں، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ كَمْ مِّنْ سُوْٓءٍ صُرِفَ بِكَ عَنَّا، وَ كَمْ مِنْ خَیْرٍ اُفِیْضَ بِكَ عَلَیْنَا.

تیری وجہ سے کتنی برائیاں ہم سے دور ہو گئیں اور کتنی بھلائیوں کے سرچشمے ہمارے لئے جاری ہو گئے، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ وَ عَلٰى لَیْلَةِ الْقَدْرِ الَّتِیْ هِیَ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.

(اے ماہِ رمضان!) تجھ پر اور اس شب قدر پر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے سلام ہو!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ مَا كَانَ اَحْرَصَنَا بِالْاَمْسِ عَلَیْكَ، وَ اَشَدَّ شَوْقَنَا غَدًاۤ اِلَیْكَ.

ابھی کل ہم کتنے تجھ پر وارفتہ تھے اور آنے والے کل میں ہمارے شوق کی کتنی فراوانی ہو گی، تجھ پر سلام!

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ وَ عَلٰى فَضْلِكَ الَّذِیْ حُرِمْنَاهُ، وَ عَلٰى مَاضٍ مِّن بَرَكَاتِكَ سُلِبْنَاهُ.

(اے ماہِ مبارک تجھ پر) اور تیری ان فضیلتوں پر جن سے ہم محروم ہو گئے اور تیری گزشتہ برکتوں پر جو ہمارے ہاتھ سے جاتی رہیں، سلام ہو!

اَللّٰهُمَّ اِنَّاۤ اَهْلُ هٰذَا الشَّهْرِ الَّذِیْ شَرَّفْتَنَا بِهٖ، وَ وَفَّقْتَنَا بِمَنِّكَ لَهٗ حِیْنَ جَهِلَ الْاَشْقِیَآءُ وَقْتَهٗ، وَ حُرِمُوْا لِشَقَآئِهِمْ فَضْلَهٗ، اَنْتَ وَلِیُّ مَا اٰثَرْتَنَا بِهٖ مِنْ مَّعْرِفَتِهٖ، وَ هَدَیْتَنَا لَهٗ مِنْ سُنَّتِهٖ، وَ قَدْ تَوَلَّیْنَا بِتَوْفِیْقِكَ صِیَامَهٗ وَ قِیَامَهٗ عَلٰى تَقْصِیْرٍ، وَ اَدَّیْنَا فِیْهِ قَلِیلًا مِّنْ كَثِیْرٍ.

اے اللہ! ہم اس مہینہ سے مخصوص ہیں جس کی وجہ سے تو نے ہمیں شرف بخشا، اور اپنے لطف و احسان سے اس کی حق شناسی کی توفیق دی، جبکہ بدنصیب لوگ اس کے وقت (کی قدر و قیمت) سے بے خبر تھے، اور اپنی بدبختی کی وجہ سے اس کے فضل سے محروم رہ گئے، اور تو ہی ولی و صاحب اختیار ہے کہ ہمیں اس کی حق شناسی کیلئے منتخب کیا، اور اس کے احکام کی ہدایت فرمائی، بیشک تیری توفیق سے ہم نے اس ماہ میں روزے رکھے، عبادت کیلئے قیام کیا، مگر کمی و کوتاہی کے ساتھ اور مشتے از خروار سے زیادہ نہ بجا لا سکے۔

اَللّٰهُمَّ فَلَكَ الْحَمْدُ اِقْرَارًا بِالْاِسَآءَةِ، وَ اعْتِرَافًا بِالْاِضَاعَةِ، وَ لَكَ مِنْ قُلُوْبِنَا عَقْدُ النَّدَمِ، وَ مِنْ اَلْسِنَتِنَا صِدْقُ الِاعْتِذَارِ، فَاْجُرْنَا عَلٰى مَاۤ اَصَابَنَا فِیْهِ مِنَ التَّفْرِیْطِ اَجْرًا نَّسْتَدْرِكُ بِهِ الْفَضْلَ الْمَرْغُوْبَ فِیهِ، وَ نَعْتَاضُ بِهٖ مِنْ اَنْوَاعِ الذُّخْرِ الْمَحْرُوْصِ عَلَیْهِ، وَ اَوْجِبْ لَنا عُذْرَكَ عَلٰى مَا قَصَّرْنَا فِیْهِ مِنْ حَقِّكَ، وَ ابْلُغْ بِاَعْمَارِنَا مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ الْمُقْبِلِ، فَاِذَا بَلَّغْتَنَاهُ فَاَعِنَّا عَلٰى تَنَاوُلِ مَاۤ اَنْتَ اَهْلُهٗ مِنَ الْعِبَادَةِ، وَ اَدِّنَاۤ اِلَى الْقِیَامِ بِمَا یَسْتَحِقُّهٗ مِنَ الطَّاعَةِ، وَ اَجْرِ لَنا مِنْ صَالِحِ الْعَمَلِ مَا یَكُوْنُ دَرَكًا لِّحَقِّكَ فِی الشَّهْرَیْنِ مِنْ شُهُورِ الدَّهْرِ.

اے اللہ! ہم اپنی بد اعمالی کا اقرار اور سہل انگاری کا اعتراف کرتے ہوئے تیری حمد کرتے ہیں، اور اب تیرے لئے کچھ ہے تو وہ ہمارے دلوں کی واقعی شرمساری اور ہماری زبانوں کی سچی معذرت ہے، لہٰذا اس کمی و کوتاہی کے باوجود جو ہم سے ہوئی ہے ہمیں ایسا اجر عطا کر کہ ہم اس کے ذریعہ دلخواہ فضیلت و سعادت کو پا سکیں، اور طرح طرح کے اجر و ثواب کے ذخیرے جن کے ہم آرزومند تھے اس کے عوض حاصل کر سکیں، اور ہم نے تیرے حق میں جو کمی و کوتاہی کی ہے اس میں ہمارے عذر کو قبول فرما، اور ہماری عمر آئندہ کا رشتہ آنے والے ماہِ رمضان سے جوڑ دے، اور جب اس تک پہنچا دے تو جو عبادت تیرے شایان شان ہو اس کے بجا لانے پر ہماری اعانت فرمانا، اور اس اطاعت پر جس کا وہ مہینہ سزاوار ہے عمل پیرا ہونے کی توفیق دینا، اور ہمارے لئے ایسے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رکھنا کہ جو زمانۂ زیست کے مہینوں میں ایک کے بعد دوسرے ماہ، ماہِ رمضان میں تیری حق ادائیگی کا باعث ہوں۔

اَللّٰهُمَّ وَ مَاۤ اَلْمَمْنَا بِهٖ فِیْ شَهْرِنَا هٰذَا مِنْ لَّمَمٍ اَوْ اِثْمٍ، اَوْ وَاقَعْنَا فِیْهِ مِنْ ذَنبٍ، وَ اكْتَسَبْنَا فِیْهِ مِنْ خَطِیْٓـئَةٍ عَلٰى تَعَمُّدٍ مِّنَّا، اَوْ عَلٰى نِسْیَانٍ ظَلَمْنَا فِیْهِ اَنْفُسَنَا، اَوِ انْتَهَكْنَا بِهٖ حُرْمَةً مِنْ غَیْرِنَا، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اسْتُرْنَا بِسِتْرِكَ، وَ اعْفُ عَنَّا بِعَفْوِكَ، وَ لَا تَنْصِبْنَا فِیْهِ لِاَعْیُنِ الشَّامِتِیْنَ، وَ لَا تَبْسُطْ عَلَیْنَا فِیْهِ اَلْسُنَ الطَّاعِنِیْنَ، وَ اسْتَعْمِلْنَا بِمَا یَكُوْنُ حِطَّةً وَّ كَفَّارَةً لِّمَاۤ اَنْكَرْتَ مِنَّا فِیْهِ بِرَاْفَتِكَ الَّتِیْ لَا تَنْفَدُ، وَ فَضْلِكَ الَّذِیْ لَا یَنْقُصُ.

اے اللہ! ہم نے اس مہینہ میں جو صغیرہ یا کبیرہ معصیت کی ہو، یا کسی گناہ سے آلودہ اور کسی خطا کے مرتکب ہوئے ہوں، جان بوجھ کر یا بھولے چوکے، خود اپنے نفس پر ظلم کیا ہو یا دوسرے کا دامن حرمت چاک کیا ہو، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اپنے پردہ میں ڈھانپ لے، اور اپنے عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے معاف کر دے، اور ایسا نہ ہو کہ اس گناہ کی وجہ سے طنز کرنے والوں کی آنکھیں ہمیں گھوریں، اور طعنہ زنی کرنے والوں کی زبانیں ہم پر کھلیں، اور اپنی شفقت بے پایاں اور مرحمت روز افزوں سے ہمیں ان اعمال پر کار بند کر کہ جو ان چیزوں کو برطرف کریں، اور ان باتوں کی تلافی کریں جنہیں تو اس ماہ میں ہمارے لئے ناپسند کرتا ہے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْبُرْ مُصِیْبَتَنَا بِشَهْرِنَا، وَ بَارِكْ لَنا فِیْ یَوْمِ عِیْدِنَا وَ فِطْرِنَا، وَ اجْعَلْهُ مِنْ خَیْرِ یَوْمٍ مَّرَّ عَلَیْنَاۤ اَجْلَبِهٖ لِعَفْوٍ، وَ اَمْحَاهُ لِذَنبٍ، وَ اغْفِرْ لَنا مَا خَفِیَ مِنْ ذُنُوْبِنَا وَ مَا عَلَنَ.

اے اللہ ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اس مہینہ کے رخصت ہونے سے جو قلق ہمیں ہوا ہے اس کا چارہ کر، اور عید اور روزہ چھوڑنے کے دن کو ہمارے لئے مبارک قرار دے، اور اسے ہمارے گزرے ہوئے دنوں میں بہترین دن قرار دے، جو عفو و درگزر کو سمیٹنے والا، اور گناہوں کو محو کرنے والا ہو، اور تو ہمارے ظاہر و پوشیدہ گناہوں کو بخش دے۔

اَللّٰهُمَّ اسْلَخْنَا بِانْسِلَاخِ هٰذَا الشَّهْرِ مِنْ خَطَایَانَا، وَ اَخْرِجْنَا بِخُرُوْجِهٖ مِنْ سَیِّئَاتِنَا، وَ اجْعَلْنَا مِنْ اَسْعَدِ اَهْلِهٖ بِهٖ، وَ اَجْزَلِهِمْ قِسْمًا فِیْهِ، وَ اَوْفَرِهِمْ حَظًّا مِّنْهُ.

بار الٰہا! اس مہینہ کے الگ ہونے کے ساتھ تو ہمیں گناہوں سے الگ کر دے، اور اس کے نکلنے کے ساتھ تو ہمیں برائیوں سے نکال لے، اور اس مہینہ کی بدولت اس کو آباد کرنے والوں میں ہمیں سب سے بڑھ کر خوشبخت، بانصیب اور بہرمند قرار دے۔

اَللّٰهُمَّ وَ مَنْ رَّعٰى هٰذَا الشَّهْرَ حَقَّ رِعَایَتِهٖ، وَ حَفِظَ حُرْمَتَهٗ حَقَّ حِفْظِهَا، وَ قَامَ بِحُدُوْدِهٖ حَقَّ قِیَامِهَا، وَ اتَّقٰى ذُنُوْبَهٗ حَقَّ تُقَاتِهَا، اَوْ تَقَرَّبَ اِلَیْكَ بِقُرْبَةٍ اَوْجَبَتْ رِضَاكَ لَهٗ، وَ عَطَفَتْ رَحْمَتَكَ عَلَیْهِ، فَهَبْ لَنا مِثْلَهٗ مِنْ وُّجْدِكَ، وَ اَعْطِنَاۤ اَضْعَافَهٗ مِنْ فَضْلِكَ، فَاِنَّ فَضْلَكَ لَا یَغِیْضُ، وَ اِنَّ خَزَآئِنَكَ لَا تَنْقُصُ بَلْ تَفِیْضُ، وَ اِنَّ مَعَادِنَ اِحْسَانِكَ لَا تَفْنٰى، وَ اِنَّ عَطَآءَكَ لَلْعَطَآءُ الْمُهَنَّا.

اے اللہ! جس کسی نے جیسا چاہیے اس مہینے کا پاس و لحاظ کیا ہو، اور کماحقہ اس کا احترام ملحوظ رکھا ہو، اور اس کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا رہا ہو، اور گناہوں سے جس طرح بچنا چاہیے اس طرح بچا ہو، یا بہ نیت تقرب ایسا عمل خیر بجا لایا ہو جس نے تیری خوشنودی اس کیلئے ضروری قرار دی ہو، اور تیری رحمت کو اس کی طرف متوجہ کر دیا ہو، تو جو اسے بخشے ویسا ہی ہمیں بھی اپنی دولت بے پایاں میں سے بخش، اور اپنے فضل و کرم سے اس سے بھی کئی گنا زائد عطا کر۔ اس لئے کہ تیرے فضل کے سوتے خشک نہیں ہوتے، اور تیرے خزانے کم ہونے میں نہیں آتے بلکہ بڑھتے ہی جاتے ہیں، اور نہ تیرے احسانات کی کانیں فنا ہوتی ہیں، اور تیری بخشش و عطا تو ہر لحاظ سے خوشگوار بخشش و عطا ہے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اكْتُبْ لَنا مِثْلَ اُجُوْرِ مَنْ صَامَهٗ، اَوْ تَعَبَّدَ لَكَ فِیْهِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیَامَةِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور جو لوگ روز قیامت تک اس ماہ کے روزے رکھیں یا تیری عبادت کریں ان کے اجر و ثواب کے مانند ہمارے لئے اجر و ثواب ثبت فرما۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَتُوْبُ اِلَیْكَ فِیْ یَوْمِ فِطْرِنَا الَّذِیْ جَعَلْتَهٗ لِلْمُؤْمِنِیْنَ عِیْدًا وَّ سُرُوْرًا، وَ لِاَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعًا وَّ مُحْتَشَدًا مِّنْ كُلِّ ذَنبٍ اَذْنَبْنَاهُ، اَوْ سُوْٓءٍ اَسْلَفْنَاهُ، اَوْ خَاطِرِ شَرٍّ اَضْمَرْنَاهُ، تَوْبَةَ مَنْ‏ لَّا یَنْطَوِیْ عَلٰى رُجُوْعٍ اِلٰى ذَنبٍ، وَ لَا یَعُوْدُ بَعْدَهَا فِیْ خَطِیْٓـئَةٍ، تَوْبَةً نَصُوْحًا خَلَصَتْ مِنَ الشَّكِّ وَ الِارْتِیَابِ، فَتَقَبَّلْهَا مِنَّا، وَ ارْضَ عَنَّا، وَ ثَبِّتْنَا عَلَیْهَا.

اے اللہ! ہم اس روز فطر میں جسے تو نے اہل ایمان کیلئے عید و مسرت کا روز اور اہل اسلام کیلئے اجتماع و تعاون کا دن قرار دیا ہے، ہر اس گناہ سے جس کے ہم مرتکب ہوئے ہوں، اور ہر اس برائی سے جسے پہلے کر چکے ہوں، اور ہر بری نیت سے جسے دل میں لئے ہوئے ہوں، اس شخص کی طرح توبہ کرتے ہیں جو گناہ کی طرف دوبارہ پلٹنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو، اور نہ توبہ کے بعد خطا کا مرتکب ہوتا ہو، ایسی سچی توبہ جو ہر شک و شبہ سے پاک ہو، تو اب ہماری توبہ کو قبول فرما، ہم سے راضی و خوشنود ہو جا، اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔

اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا خَوْفَ عِقَابِ الْوَعِیْدِ، وَ شَوْقَ ثَوَابِ الْمَوْعُوْدِ، حَتّٰى نَجِدَ لَذَّةَ مَا نَدْعُوْكَ بِهٖ، وَ كَاْبَةَ مَا نَسْتَجِیْرُكَ مِنْهُ، وَ اجْعَلْنَا عِنْدَكَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ الَّذِیْنَ اَوْجَبْتَ لَهُمْ مَحَبَّتَكَ، وَ قَبِلْتَ مِنْهُمْ مُرَاجَعَةَ طَاعَتِكَ، یَاۤ اَعْدَلَ الْعَادِلِیْنَ.

اے اللہ! گناہوں کی سزا کا خوف اور جس ثواب کا تو نے وعدہ کیا ہے اس کا شوق ہمیں نصیب فرما، تاکہ جس ثواب کے تجھ سے خواہشمند ہیں اس کی لذت اور جس عذاب سے پناہ مانگ رہے ہیں اس کی تکلیف و اذیت پوری طرح جان سکیں، اور ہمیں اپنے نزدیک ان توبہ گزاروں میں سے قرار دے جن کیلئے تو نے اپنی محبت کو لازم کر دیا ہے، اور جن سے فرمانبرداری و اطاعت کی طرف رجوع ہونے کو تو نے قبول فرمایا ہے، اے عدل کرنے والوں میں سب سے زیادہ عدل کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ تَجَاوَزْ عَنْ اٰبَآئِنَا وَ اُمَّهَاتِنَا وَ اَهْلِ دِیْنِنَا جَمِیْعًا، مَنْ سَلَفَ مِنْهُمْ وَ مَنْ غَبَرَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ.

اے اللہ! ہمارے ماں باپ اور ہمارے تمام اہل مذہب و ملت، خواہ وہ گزر چکے ہوں یا قیامت کے دن تک آیندہ آنے والے ہوں، سب سے در گزر فرما۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ نَبِـیِّنَا وَ اٰلِهٖ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰى مَلٰٓئِكَتِكَ الْمُقَرَّبِیْنَ، وَ صَلِّ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰۤى اَنبِیَآئِكَ الْمُرْسَلِیْنَ، وَ صَلِّ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰى عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ، وَ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِكَ یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ، صَلَاةً تَبْلُغُنَا بَرَكَتُهَا، وَ یَنَالُنَا نَفْعُهَا، وَ یُسْتَجَابُ لَهَا دُعَآؤُنَا، اِنَّكَ اَكْرَمُ مَنْ رُغِبَ اِلَیْهِ، وَ اَكْفٰى مَنْ تُوُكِّلَ عَلَیْهِ، وَ اَعْطٰى مَنْ سُئِلَ مِنْ فَضْلِهٖ، وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْ‏ءٍ قَدِیْرٌ.

اے اللہ! ہمارے نبی محمدؐ اور ان کی آلؑ پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی رحمت تو نے اپنے مقرب فرشتوں پر کی ہے، اور ان پر اور ان کی آلؑ پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی تو نے اپنے فرستادہ نبیوں پر نازل فرمائی ہے، اور ان پر اور ان کی آلؑ پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی تو نے اپنے نیکو کار بندوں پر نازل کی ہے، (بلکہ) اس سے بہتر و برتر، اے تمام جہان کے پروردگار! ایسی رحمت جس کی برکت ہم تک پہنچے، جس کی منفعت ہمیں حاصل ہو، اور جس کی وجہ سے ہماری دُعائیں قبول ہوں۔ اس لئے کہ تو ان لوگوں سے جن کی طرف رجوع ہوا جاتا ہے زیادہ کریم، اور ان لوگوں سے جن پر بھروسا کیا جاتا ہے زیادہ بے نیاز کرنے والا ہے، اور ان لوگوں سے جن کے فضل کی بنا پر سوال کیا جاتا ہے، زیادہ عطا کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قادر و توانا ہے۔

–٭٭–

یہ دُعا ماہ رمضان کے برکت آفرین لمحات کو الوداع کرنے کے سلسلہ میں ہے۔ لفظ ’’وداع‘‘، دعة سے ماخوذ ہے جس کے معنی راحت و آرام اور پرسکون زندگی کے ہیں۔ اور مسافر کو وداع کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے اپنی محبت و دل بستگی کا اظہار کیا جائے اور اس کیلئے دُعا کی جائے کہ سفر کی صعوبتیں اس کیلئے آسان اور منزل کی دشواریاں اس کیلئے سہل ہوں اور اسے دوبارہ پلٹ کر آنا نصیب ہو، یا جہاں جانا چاہتا ہے وہاں سکون و قرار حاصل ہو۔ یہ وداع اس کی دلیل ہے کہ جسے وداع کیا جا رہا ہے نگاہوں میں اس کی عزت اور دل میں اس کی قدر و منزلت ہے اور اس کی جدائی گراں اور مفارقت شاق ہے۔ یہ محبت اور لگاؤ زمان سے بھی ہو سکتا ہے اور مکان سے بھی۔ ذی شعور سے بھی ہو سکتا ہے اور غیر ذی شعور سے بھی۔ چنانچہ اسی محبت و وابستگی کے نتیجہ میں انسان کبھی ماضی کے ان لمحوں کو پکارتا ہے جو اپنی خوشگوار یاد دل میں چھوڑ جاتے ہیں اور کبھی شباب کی گھڑیوں کو خطاب کرتا اور عمر رفتہ کو آواز دیتا ہے، اور کبھی اداس کھنڈروں، خاموش ویرانوں اور شکستہ دیواروں سے خطاب کرتا ہے اور کبھی ان کی زبان بے زبانی کی خود ترجمانی کرتا اور کبھی ان سے بولنے اور جواب دینے کی فرمائش کرتا ہے۔ چنانچہ عرب کا ایک شاعر کہتا ہے:

يَا دَارَ عَبْلَةَ بِالْجِوَآءِ تَكَلَّمِیْ

وَ عِمِیْ صَبَاحًا دَارَ عَبْلَةَ وَ اسْلَمِیْ

’’اے مقام جوا میں واقع ہونے والے عبلہ کے گھر !کچھ بول کہ میں گوش بر آواز ہوں، تیری صبحیں غارت گری سے محفوظ اور تو گردش زمانہ سے بچا رہے‘‘۔

اسی طرح ماہ رمضان کے لمحوں اور ساعتوں سے خطاب کرنا اس سے انتہائی وابستگی کی دلیل ہے۔ کیونکہ خاصان خدا کو ذکر الٰہی، اطاعت خداوندی اور عبادت سے اتنی شیفتگی ہوتی ہے کہ وہ عبادت کے مخصوص دنوں اور لمحوں سے بھی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان لمحوں کی جدائی کو اتنا ہی محسوس کرتے ہیں جتنا دل باختگان محبت، محبوب کی جدائی کو اور اسی طرح بجھے ہوئے دل اور مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ انہیں الوداع کرتے ہیں جس طرح محبوب کو رخصت کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرتؑ اواخر ماہ رمضان میں یہ دُعا پڑھتے اور تحسر آمیز جذبات کے ساتھ اسے الوداع کرتے۔

یہ دُعا انہی لوگوں کیلئے ہے جنہوں نے اس ماہ مبارک کے لمحات عبادت و اطاعت میں گزارے ہوں، واجبات ادا کئے ہوں اور محرمات سے کنارہ کش رہے ہوں۔ اور جنہوں نے نماز روزہ سے کوئی واسطہ نہ رکھا ہو تو انہیں اس کے آنے پر خوشی ہی کیا تھی کہ جانے کا رنج کریں اور اسے الوداع کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔ البتہ جنہوں نے خدا کی خوشنودی کا سر و سامان کیا ہو اور اس کے مبارک لمحات میں زاد آخرت بہم پہنچایا ہو، فرائض و واجبات ادا کئے ہوں، انہیں الوداع کرنا چاہیے، تا کہ ان کے حسنات میں مزید اضافہ ہو اور رحمت و مغفرت الٰہی کے اہل قرار پائیں۔ چنانچہ جابر ابن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں:

دَخَلْتُ عَلٰى رَسُوْلِ اللّٰهِﷺ فِیْۤ اٰخِرِ جُمُعَةٍ مِّنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَلَمَّا بَصُرَ بِیْ قَالَ لِیْ: يَا جَابِرُ! هٰذَا اٰخِرُ جُمُعَةٍ مِّنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَوَدِّعْهُ وَ قُلِ: «اللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْهُ اٰخِرَ الْعَهْدِ مِنْ صِيَامِنَا اِيَّاهُ، فَاِنْ جَعَلْتَهٗ فَاجْعَلْنِیْ مَرْحُوْمًا وَّ لَا تَجْعَلْنِیْ مَحْرُوْمًا«، فَاِنَّهٗ مَنْ قَالَ ذٰلِكَ ظَفِرَ بِاِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ: اِمَّا بِبُلُوْغِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَ اِمَّا بِغُفْرَانِ اللّٰهِ وَ رَحْمَتِهٖ.

میں ماہ رمضان میں جمعة الوداع کے دن پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ: اے جابر! یہ ماہ رمضان کا آخری جمعہ ہے، لہٰذا اسے وداع کرو اور یہ کہو: ’’اے اللہ! اسے ہمارے روزوں کا آخری زمانہ نہ قرار دے اور اگر تو نے قرار دیا ہے تو ہمیں اپنی رحمت سے سرفراز کر اور محروم نہ کر‘‘۔ تو جو شخص یہ کلمات کہے گا تو وہ دو خوبیوں میں سے ایک خوبی کو ضرور پائے گا: یا تو آئندہ کا ماہ رمضان اسے نصیب ہو گا، یا اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رحمت اس کے شامل حال ہو گی۔ [۱]

یہ دُعا جمعة الوداع یا ماہ رمضان کی آخری شب یا آخری روز میں پڑھنا چاہیے اور آخری شب میں سحر کے وقت پڑھنا بہتر ہے۔ اور اس سے بہتر یہ ہے کہ جمعة الوداع میں بھی پڑھے اور آخری شب میں بھی پڑھے۔ اور اگر یہ خیال ہو کہ چاند انتیس کا ہو گا تو انتیسویں شب میں پڑھے اور چاند نہ ہو تو تیسویں شب میں بھی پڑھے اور ایک قول یہ ہے کہ شب عید پڑھے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ وسائل الشیعہ، ج ۱۰، ص ۳۶۵

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button