46۔ عیدین اور جمعہ کی دعا
(۴۶) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِیْ یَوْمِ الْفِطْرِ، اِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلٰوتِهٖ قَامَ قَآئِمًا ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ:
جب نمازِ عید الفطر سے فارغ ہو کر پلٹتے تو (رو بہ قبلہ کھڑے ہو کر) یہ دُعا پڑھتے اور جمعہ کے دن بھی یہ دُعا پڑھتے:
یَا مَنْ یَّرْحَمُ مَنْ لَّا یَرْحَمُهُ الْعِبَادُ، وَ یَا مَنْ یَّقْبَلُ مَنْ لَّا تَقْبَلُهُ الْبِلَادُ، وَ یَا مَنْ لَّا یَحْتَقِرُ اَهْلَ الْحَاجَةِ اِلَیْهِ، وَ یَا مَنْ لَّا یُخَیِّبُ الْمُلِحِّیْنَ عَلَیْهِ، وَ یَا مَنْ لَّا یَجْبَهٗ بِالرَّدِّ اَهْلَ الدَّالَّةِ عَلَیْهِ، وَ یَا مَنْ یَّجْتَبِیْ صَغِیْرَ مَا یُتْحَفُ بِهٖ، وَ یَشْكُرُ یَسِیْرَ مَا یُعْمَلُ لَهٗ، وَ یَا مَنْ یَّشْكُرُ عَلَى الْقَلِیْلِ وَ یُجَازِیْ بِالْجَلِیْلِ، وَ یَا مَنْ یَّدْنُوْ اِلٰى مَنْ دَنَا مِنْهُ، وَ یَا مَنْ یَّدْعُوْ اِلٰى نَفْسِهٖ مَنْ اَدْبَرَ عَنْهُ، وَ یَا مَنْ لَّا یُغَیِّرُ النِّعْمَةَ، وَ لَا یُبَادِرُ بِالنَّقِمَةِ، وَ یَا مَنْ یُّثْمِرُ الْحَسَنَةَ حَتّٰى یُنْمِیَهَا، وَ یَتَجَاوَزُ عَنِ السَّیِّئَةِ حَتّٰى یُعَفِّیَهَا،
اے وہ جو ایسے شخص پر رحم کرتا ہے جس پر بندے رحم نہیں کرتے، اے وہ جو ایسے (گنہگار) کو قبول کرتا ہے جسے کوئی قطعہ زمین (اس کے گناہوں کے باعث) قبول نہیں کرتا، اے وہ جو اپنے حاجتمند کو حقیر نہیں سمجھتا، اے وہ جو گڑگڑانے والوں کو ناکام نہیں پھیرتا، اے وہ جو نازش بے جا کرنے والوں کو ٹھکراتا نہیں، اے وہ جو چھوٹے سے چھوٹے تحفہ کو بھی پسندیدگی کی نظروں سے دیکھتا ہے، اور جو معمولی سے معمولی عمل اس کیلئے بجا لایا گیا ہو اس کی جزا دیتا ہے، اے وہ جو اس سے قریب ہو وہ اس سے قریب ہوتا ہے، اے وہ کہ جو اس سے رو گردانی کرے اسے اپنی طرف بلاتا ہے، اور وہ جو نعمت کو بدلتا نہیں اور نہ سزا دینے میں جلدی کرتا ہے، اے وہ جو نیکی کے نہال کو بار آور کرتا ہے تاکہ اسے بڑھا دے، اور گناہوں سے درگزر کرتا ہے تاکہ انہیں ناپید کر دے۔
اِنْصَرَفَتِ الْاٰمَالُ دُوْنَ مَدٰى كَرَمِكَ بِالْحَاجَاتِ، وَ امْتَلَاَتْ بِفَیْضِ جُوْدِكَ اَوْعِیَةُ الطَّلِبَاتِ، وَ تَفَسَّخَتْ دُوْنَ بُلُوْغِ نَعْتِكَ الصِّفَاتُ، فَلَكَ الْعُلُوُّ الْاَعْلٰى فَوْقَ كُلِّ عَالٍ، وَ الْجَلَالُ الْاَمْجَدُ فَوْقَ كُلِّ جَلَالٍ، كُلُّ جَلِیْلٍ عِنْدَكَ صَغِیْرٌ، وَ كُلُّ شَرِیْفٍ فِی جَنبِ شَرَفِكَ حَقِیْرٌ.
امیدیں تیری سرحد کرم کو چھونے سے پہلے کامران ہو کر پلٹ آئیں، اور طلب و آرزو کے ساغر تیرے فیضان جود سے چھلک اٹھے، اور صفتیں تیرے کمال ذات کی منزل تک پہنچنے سے درماندہ ہو کر منتشر ہو گئیں، اس لئے کہ بلند ترین رفعت جو ہر کنگرۂ بلند سے بالاتر ہے، اور بزرگ ترین عظمت جو ہر عظمت سے بلند تر ہے، تیرے لئے مخصوص ہے، ہر بزرگ تیری بزرگی کے سامنے چھوٹا، اور ہر ذی شرف تیرے شرف کے مقابلہ میں حقیر ہے۔
خَابَ الْوَافِدُوْنَ عَلٰى غَیْرِكَ، وَ خَسِرَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ اِلَّا لَكَ، وَ ضَاعَ الْمُلِمُّوْنَ اِلَّا بِكَ، وَ اَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُوْنَ اِلَّا مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ.
جنہوں نے تیرے غیر کا رخ کیا وہ ناکام ہوئے، جنہوں نے تیرے سوا دوسروں سے طلب کیا وہ نقصان میں رہے، جنہوں نے تیرے سوا دوسروں کے ہاں منزل کی وہ تباہ ہوئے، جو تیرے فضل کے بجائے دوسروں سے رزق و نعمت کے طلبگار ہوئے وہ قحط و مصیبت سے دوچار ہوئے۔
بَابُكَ مَفْتُوْحٌ لِّلرَّاغِبِیْنَ، وَ جُوْدُكَ مُبَاحٌ لِّلسَّآئِلِیْنَ، وَ اِغَاثَتُكَ قَرِیْبَةٌ مِّنَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ.
تیرا دروازہ طلبگاروں کیلئے وا ہے اور تیرا جود و کرم سائلوں کیلئے عام ہے، تیری فریاد رسی داد خواہوں سے نزدیک ہے۔
لَا یَخِیْبُ مِنْكَ الْاٰمِلُوْنَ، وَ لَا یَیْاَسُ مِنْ عَطَآئِكَ الْمُتَعَرِّضُوْنَ، وَ لَا یَشْقٰى بِنَقِمَتِكَ الْمُسْتَغْفِرُوْنَ.
امید وار تجھ سے محروم نہیں رہتے، اور طلبگار تیری عطا و بخشش سے مایوس نہیں ہوتے، اور مغفرت چاہنے والے پر تیرے عذاب کی بدبختی نہیں آتی۔
رِزْقُكَ مَبْسُوْطٌ لِّمَنْ عَصَاكَ، وَ حِلْمُكَ مُعْتَرِضٌ لِّمَنْ نَّاوَاكَ، عَادَتُكَ الْاِحْسَانُ اِلَى الْمُسِیْٓئِیْنَ، وَ سُنَّتُكَ الْاِبْقَآءُ عَلَى الْمُعْتَدِیْنَ، حَتّٰى لَقَدْ غَرَّتْهُمْ اَنَاتُكَ عَنِ الرُّجُوْعِ، وَ صَدَّهُمْ اِمْهَالُكَ عَنِ النُّزُوْعِ، وَ اِنَّمَا تَاَنَّیْتَ بِهِمْ لِیَفِیْٓـئُوْاۤ اِلٰۤى اَمْرِكَ، وَ اَمْهَلْتَهُمْ ثِقَةً بِدَوَامِ مُلْكِكَ، فَمَنْ كَانَ مِنْ اَهْلِ السَّعَادَةِ خَتَمْتَ لَهٗ بِهَا، وَ مَنْ كَانَ مِنْ اَهْلِ الشَّقَاوَةِ خَذَلْتَهٗ لَهَا، كُلُّهُمْ صَآئِرُوْنَ اِلٰى حُكْمِكَ، وَ اَمُوْرُهُمْ اٰئِلَةٌ اِلٰۤى اَمْرِكَ، لَمْ یَهِنْ عَلٰى طُوْلِ مُدَّتِهِمْ سُلْطَانُكَ، وَ لَمْ یَدْحَضْ لِتَرْكِ مُعَاجَلَتِھِمْ بُرْهَانُكَ، حُجَّتُكَ قَآئِمَةٌ لَّا تُدْحَضُ، وَ سُلْطَانُكَ ثَابِتٌ لَّا یَزُوْلُ.
تیرا خوان نعمت ان کیلئے بھی بچھا ہوا ہے جو تیری نافرمانی کرتے ہیں، اور تیری بُردباری ان کے بھی آڑے آتی ہے جو تجھ سے دشمنی رکھتے ہیں، بُروں سے نیکی کرنا تیری روش، اور سرکشوں پر مہربانی کرنا تیرا طریقہ ہے، یہاں تک کہ نرمی و حلم نے انہیں (حق کی طرف) رجوع ہونے سے غافل کر دیا، اور تیری دی ہوئی مہلت نے انہیں اجتنابِ معاصی سے روک دیا، حالانکہ تو نے ان سے نرمی اس لئے کی تھی کہ وہ تیرے فرمان کی طرف پلٹ آئیں اور مہلت اس لئے دی تھی کہ تجھے اپنے تسلط و اقتدار کے دوام پر اعتماد تھا (کہ جب چاہے انہیں اپنی گرفت میں لے سکتا ہے)، اب جو خوش نصیب تھا اس کا خاتمہ بھی خوش نصیبی پر کیا اور جو بدنصیب تھا اسے ناکام رکھا۔ (وہ خوش نصیب ہوں یا بد نصیب) سب کے سب تیرے حکم کی طرف پلٹنے والے ہیں اور ان کا مآل تیرے امر سے وابستہ ہے، ان کی طویل مدت مہلت سے تیری دلیل و حجت میں کمزوری رُونما نہیں ہوتی (جیسے اس شخص کی دلیل کمزور ہو جاتی ہے جو اپنے حق کے حاصل کرنے میں تاخیر کرے) اور فوری گرفت کو نظر انداز کرنے سے تیری حجت و برہان باطل نہیں قرار پائی (کہ یہ کہا جائے کہ اگر اس کے پاس ان کے خلاف دلیل و برہان ہوتی تو وہ مہلت کیوں دیتا)، تیری حجت برقرار ہے جو باطل نہیں ہو سکتی اور تیری دلیل محکم ہے جو زائل نہیں ہو سکتی۔
فَالْوَیْلُ الدَّآئِمُ لِمَنْ جَنَحَ عَنْكَ، وَ الْخَیْبَةُ الْخَاذِلَةُ لِمَنْ خَابَ مِنْكَ، وَ الشَّقَآءُ الْاَشْقٰى لِمَنِ اغْتَرَّ بِكَ.
لہٰذا دائمی حسرت و اندوہ اسی شخص کیلئے ہے جو تجھ سے روگردان ہوا، اور رسوا کن نامرادی اسی کیلئے ہے جو تیرے ہاں سے محروم رہا، اور بدترین بدبختی اسی کیلئے ہے جس نے تیری چشم پوشی سے فریب کھایا۔
مَاۤ اَكْثَرَ تَصَرُّفَهٗ فِیْ عَذَابِكَ، وَ مَاۤ اَطْوَلَ تَرَدُّدَهٗ فِیْ عِقَابِكَ، وَ مَاۤ اَبْعَدَ غَایَتَهٗ مِنَ الْفَرَجِ، وَ مَاۤ اَقْنَطَهٗ مِنْ سُهُوْلَةِ الْمَخْرَجِ عَدْلًا مِّنْ قَضَآئِكَ لَا تَجُوْرُ فِیْهِ، وَ اِنْصَافًا مِّنْ حُكْمِكَ لَا تَحِیْفُ عَلَیْهِ.
ایسا شخص کس قدر تیرے عذاب میں الٹے پلٹے کھاتا، اور کتنا طویل زمانہ تیرے عقاب میں گردش کرتا رہے گا، اور اس کی رہائی کا مرحلہ کتنی دور، اور بآسانی نجات حاصل کرنے سے کتنا مایوس ہو گا، یہ تیرا فیصلہ ازروئے عدل ہے جس میں ذرا بھی ظلم نہیں کرتا اور تیرا یہ حکم مبنی بر انصاف ہے جس میں اس پر زیادتی نہیں کرتا۔
فَقَدْ ظَاهَرْتَ الْحُجَجَ، وَ اَبْلَیْتَ الْاَعْذَارَ، وَ قَدْ تَقَدَّمْتَ بِالْوَعِیْدِ، وَ تَلَطَّفْتَ فِی التَّرْغِیْبِ، وَ ضَرَبْتَ الْاَمْثَالَ، وَ اَطَلْتَ الْاِمْهَالَ وَ اَخَّرْتَ، وَ اَنْتَ مُسْتَطِیْعٌ لِّلْمُعَاجَلَةِ، وَ تَاَنَّیْتَ وَ اَنْتَ مَلِیْٓءٌ بِالْمُبَادَرَةِ، لَمْ تَكُنْ اَنَاتُكَ عَجْزًا، وَ لَاۤ اِمْهَالُكَ وَهْنًا، وَ لَاۤ اِمْسَاكُكَ غَفْلَةً، وَ لَا انْتِظَارُكَ مُدَارَاةً، بَلْ لِتَكُوْنَ حُجَّتُكَ اَبْلَغَ، وَ كَرَمُكَ اَكْمَلَ، وَ اِحْسَانُكَ اَوْفٰى، وَ نِعْمَتُكَ اَتَمَّ، كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ وَ لَمْ تَزَلْ، وَ هُوَ كَآئِنٌ وَّ لَا تَزَالُ.
اس لئے کہ تو نے پے درپے دلیلیں قائم اور قابل قبول حجتیں آشکارا کر دی ہیں، اور پہلے سے ڈرانے والی چیزوں کے ذریعہ آگاہ کر دیا ہے، اور لطف و مہربانی سے (آخرت کی) ترغیب دلائی ہے، اور طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں، مہلت کی مدت بڑھا دی ہے، اور (عذاب میں) تاخیر سے کام لیا ہے حالانکہ تو فوری گرفت پر اختیار رکھتا تھا، اور نرمی و مدارات سے کام لیا ہے باوجودیکہ تو تعجیل کرنے پر قادر تھا، یہ نرم روی، عاجزی کی بنا پر اور مہلت دہی کمزوری کی وجہ سے نہ تھی، اور نہ عذاب میں توقف کرنا غفلت و بے خبری کے باعث اور نہ تاخیر کرنا نرمی و ملاطفت کی بنا پر تھا، بلکہ یہ اس لئے تھا کہ تیری حجت ہر طرح سے پوری ہو، تیرا کرم کامل تر، تیرا احسان فراواں اور تیری نعمت تمام تر ہو، یہ تمام چیزیں تھیں اور رہیں گی درآنحالیکہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
حُجَّتُكَ اَجَلُّ مِنْ اَنْ تُوْصَفَ بِكُلِّهَا، وَ مَجْدُكَ اَرْفَعُ مِنْ اَنْ یُّحَدَّ بِكُنْهِهٖ، وَ نِعْمَتُكَ اَكْثَرُ مِنْ اَنْ تُحْصٰۤى بِاَسْرِهَا، وَ اِحْسَانُكَ اَكْثَرُ مِنْ اَنْ تُشْكَرَ عَلٰۤى اَقَلِّهٖ، وَ قَدْ قَصَّرَ بِیَ السُّكُوْتُ عَنْ تَحْمِیْدِكَ، وَ فَهَّهَنِیَ الْاِمْسَاكُ عَنْ تَمْجِیْدِكَ، وَ قُصَارَایَ الْاِقْرَارُ بِالْحُسُوْرِ، لَا رَغْبَةً- یَّاۤ اِلٰهِیْ- بَلْ عَجْزًا.
تیری حجت اس سے بالا تر ہے کہ اس کے تمام گوشوں کو پوری طرح بیان کیا جا سکے، اور تیری عزّت و بزرگی اس سے بلند تر ہے کہ اس کی کنہ و حقیقت کی حدیں قائم کی جائیں، اور تیری نعمتیں اس سے فزوں تر ہیں کہ ان سب کا شمار ہو سکے، اور تیرے احسانات اس سے کہیں زیادہ تر ہیں کہ ان میں کے ادنیٰ احسان پر بھی تیرا شکریہ ادا کیا جا سکے، (میں تیری حمد و سپاس سے عاجز اور درماندہ ہوں، گویا) خاموشی نے تیری پے در پے حمد و سپاس سے مجھے ناتواں کر دیا ہے، اور توقف نے تیری تمجید و ستائش سے مجھے گنگ کر دیا ہے، اور اس سلسلہ میں میری توانائی کی حدیہ ہے کہ اپنی درماندگی کا اعتراف کروں، یہ بے رغبتی کی وجہ سے نہیں ہے اے میرے معبود! بلکہ عجز و ناتوانی کی بنا پر ہے۔
فَهَاۤ اَنَا ذَاۤ اَؤُمُّكَ بِالْوِفَادَةِ، وَ اَسْئَلُكَ حُسْنَ الرِّفَادَةِ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اسْمَعْ نَجْوَایَ، وَ اسْتَجِبْ دُعَآئِیْ، وَ لَا تَخْتِمْ یَوْمِیْ بِخَیْبَتِیْ، وَ لَا تَجْبَهْنِیْ بِالرَّدِّ فِیْ مَسْئَلَتِیْ، وَ اَكْرِمْ مِنْ عِنْدِكَ مُنْصَرَفِیْ، وَ اِلَیْكَ مُنْقَلَبِیْ.
اچھا تو میں اب تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کا قصد کرتا ہوں اور تجھ سے حسن اعانت کا خواستگار ہوں، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میری راز و نیاز کی باتوں کو سن، اور میری دُعا کو شرف قبولیت بخش، اور میرے دن کو ناکامی کے ساتھ ختم نہ کر، اور میرے سوال میں مجھے ٹھکرا نہ دے، اور اپنی بارگاہ سے پلٹنے اور پھر پلٹ کر آنے کو عزت و احترام سے ہمکنار فرما۔
اِنَّكَ غَیْرُ ضَآئِقٍ بِمَا تُرِیْدُ، وَ لَا عَاجِزٍ عَمَّا تُسْئَلُ، وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ.
اس لئے کہ تجھے تیرے ارادہ میں کوئی دشواری حائل نہیں ہوتی، اور جو چیز تجھ سے طلب کی جائے اس کے دینے سے عاجز نہیں ہوتا، اور تو ہر چیز پر قادر ہے، اور قوت و طاقت نہیں سوا اللہ کے سہارے کے جو بلند مرتبہ عظیم ہے۔
–٭٭–
ہر قوم و ملت میں کوئی نہ کوئی دن ایسا ضرور ہوتا ہے جو کسی تاریخی پس منظر کی وجہ سے یادگار کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے وہ اپنے طریقہ سے مناتے اور اس میں سرور و مسرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتش نمرود سرد ہوئی اور وہ آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں سے زندہ و سلامت نکل آئے، وہ دن ان کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پا گیا۔ اور جس دن حضرت یونس علیہ السلام شکم ماہی کے زنداں سے رہا ہوئے وہ دن ان کی قوم کیلئے عید کا دن بن گیا۔ اور جس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت پر مائدہ نازل ہوا وہ ان کیلئے عید کا دن قرار پا گیا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَآىِٕدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا﴾
اے ہمارے پروردگار! تو ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر جو ہمارے لئے عید قرار پائے۔ [۱]
اسی طرح اسلام میں بھی مختلف یادگاروں کے سلسلہ میں متعدد عیدیں منائی جاتی ہیں، جن میں سے ’’عید الاضحیٰ‘‘ اور ’’عید الفطر‘‘ زیادہ شہرت رکھتی ہیں۔ ’’عید الاضحیٰ‘‘ اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان گاہِ منیٰ میں پیش کی تھی اور ’’عید الفطر‘‘ ماہ مبارک رمضان کے اختتام پر فریضۂ صیام سے عہدہ برآ ہونے کے شکریہ میں منائی جاتی ہے۔
اس عید کی مسرت کو ہمہ گیر بنانے کیلئے اسلام نے ہر ذی استطاعت پر ایک مخصوص مقدار زکوٰة فطرہ کی واجب کر دی ہے، اس ہدایت کے ساتھ کہ نماز سے پہلے مستحقین تک پہنچا دی جائے، تا کہ وہ بھی عید کی مسرتوں میں دوسروں کے ساتھ شریک ہو سکیں۔ اور یہ اسلام کی حکیمانہ موقع شناسی ہے کہ اس نے عید الفطر کے موقع پر غرباء کی اعانت ضروری قرار دی۔ اس لئے کہ تیس دن بھوک پیاس میں گزارنے اور فاقہ کشی کی تکلیف سے آشنا ہونے کے بعد غریبوں کے دکھ درد کا احساس اور ان سے ہمدردی کا جذبہ ابھر آتا ہے جو غریبوں اور ناداروں کی اعانت کا محرک ہوتا ہے اور انسان بطیب خاطر اس مختصر مالی قربانی کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے۔
ادائے فطرہ کے بعد دوگانہ عید سے اس دن کا افتتاح کیا جاتا ہے۔ جس میں اہل شہر مجتمع ہو کر اجتماعی شان، ملی تنظیم اور اسلامی اخوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پھر خطبہ عید پڑھا جاتا ہے جو تحمید و تقدیس، درود و سلام، پند و نصیحت اور سورة قرآنی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے بعد مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ مصافحہ و معانقہ، سلام و دُعا اور میل ملاقات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اسی مسرت افزا ماحول میں یہ دن تمام ہوتا ہے۔
یہ ہے اسلامی تہوار جس کی مسرت میں سنجیدگی، کیف میں شائستگی اور لطف و سرور میں تہذیب کو سمو دیا گیا ہے اور اس کے آداب و رسوم میں اعلیٰ اخلاقی مقاصد کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے۔ جس دن کی ابتدا فریضہ صبح کے علاوہ زکوٰة و نماز اور استماع خطبہ سے ہو اور اس کے لمحات میل ملاقات اور رنجشوں اور کدورتوں کو دور کرنے میں صرف ہوں وہ دن یقیناً دل میں ایک مسرت آمیز طمانیت کا احساس پیدا کرے گا اور نیکی کے جذبات ابھار کر نیک کرداری و خدا پرستی اور قلب و روح کی تطہیر کا سامان کرے گا۔ اور حقیقی عید یہی ہے کہ انسان اپنے قلب و ضمیر کو پاک و صاف کرے، گناہوں سے دامن بچائے اور برائیوں سے محفوظ رہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا هُوَ عِیْدٌ لِّمَنْ قَبِلَ اللهُ صِیَامَهٗ وَ شَكَرَ قِیَامَهٗ، وَ كُلُّ یَوْمٍ لَّا یُعْصَى اللهُ فِیْهِ فَهُوَ عِیْدٌ.
’’عید‘‘ صرف اس کیلئے ہے جس کے روزوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور اس کے قیام (نماز) کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ہر وہ دن جس میں اللہ تعالیٰ کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔ [۲]
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ المائدہ، آیت ۱۱۴
[۲]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۲۸