صحیفہ کاملہ

49۔ دشمن کے مکر و فریب کی دعا

(۴۹) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِیْ دِفَاعِ كَیْدِ الْاَعْدَآءِ، وَ رَدِّ بَاْسِهِمْ:

دشمنوں کے مکر و فریب کے دفعیہ اور ان کی شدت و سختی کو دور کرنے کیلئے حضرتؑ کی دُعا:

اِلٰهِیْ هَدَیْتَنِیْ فَلَهَوْتُ، وَ وَعَظْتَ فَقَسَوْتُ، وَ اَبْلَیْتَ الْجَمِیْلَ فَعَصَیْتُ، ثُمَّ عَرَفْتُ مَاۤ اَصْدَرْتَ اِذْ عَرَّفْتَنِیْهِ، فَاسْتَغْفَرْتُ فَاَقَلْتَ، فَعُدْتُّ فَسَتَرْتَ، فَلَكَ- اِلٰهِیَ- الْحَمْدُ، تَقَحَّمْتُ اَوْدِیَةَ الْهَلَاكِ، وَ حَلَلْتُ شِعَابَ تَلَفٍ، تَعَرَّضْتُ فِیْهَا لِسَطَوَاتِكَ، وَ بِحُلُولِهَا عُقُوبَاتِكَ.

اے میرے معبود! تو نے میری رہنمائی کی مگر میں غافل رہا، تو نے پند و نصیحت کی مگر میں سخت دلی کے باعث متاثر نہ ہوا، تو نے مجھے عمدہ نعمتیں بخشیں مگر میں نے نافرمانی کی، پھر یہ کہ جن گناہوں سے تو نے میرا رخ موڑا جبکہ تو نے مجھے اس کی معرفت عطا کی تو میں نے (گناہوں کی برائی کو) پہچان کر توبہ و استغفار کی جس پر تو نے مجھے معاف کر دیا، اور پھر گناہوں کا مرتکب ہوا تو تو نے پردہ پوشی سے کام لیا، اے میرے معبود! تیرے ہی لئے حمد و ثنا ہے، میں ہلاکت کی وادیوں میں پھاندا، اور تباہی و بربادی کی گھاٹیوں میں اترا، ان ہلاکت خیز گھاٹیوں میں تیری قہرمانی سخت گیریوں اور ان میں در آنے سے تیری عقوبتوں کا سامنا کیا۔

وَ وَسِیْلَتِیْۤ اِلَیْكَ التَّوْحِیْدُ، وَ ذَرِیْعَتِیْۤ اَنِّیْ لَمْ اُشْرِكْ بِكَ شَیْئًا، وَ لَمْ اَتَّخِذْ مَعَكَ اِلٰهًا، وَ قَدْ فَرَرْتُ اِلَیْكَ بِنَفْسِیْ، وَ اِلَیْكَ مَفَرُّ الْمُسِیْٓ‏ءِ، وَ مَفْزَعُ الْمُضَیِّعِ لِحَظِّ نَفْسِهِ الْمُلْتَجِئِ.

تیری بارگاہ میں میرا وسیلہ تیری وحدت و یکتائی کا اقرار ہے، اور میرا ذریعہ صرف یہ ہے کہ میں نے کسی چیز کو تیرا شریک نہیں جانا، اور تیرے ساتھ کسی کو معبود نہیں ٹھہرایا، اور میں اپنی جان کو لئے تیری رحمت و مغفرت کی جانب گریزاں ہوں، اور ایک گنہگار تیری ہی طرف بھاگ کر آتا ہے، اور ایک التجا کرنے والا جو اپنے حظ و نصیب کو ضائع کر چکا ہو تیرے ہی دامن میں پناہ لیتا ہے۔

فَكَمْ مِنْ عَدُوٍّ انْتَضٰى عَلَیَّ سَیْفَ عَدَاوَتِهٖ، وَ شَحَذَ لِیْ ظُبَةَ مُدْیَتِهٖ، وَ اَرْهَفَ لِیْ شَبَا حَدِّهٖ، وَ دَافَ لِیْ قَوَاتِلَ سُمُوْمِهٖ، وَ سَدَّدَ نَحْوِیْ صَوَآئِبَ سِهَامِهٖ، وَ لَمْ تَنَمْ عَنِّیْ عَیْنُ حِرَاسَتِهٖ، وَ اَضْمَرَ

کتنے ہی ایسے دشمن تھے جنہوں نے شمشیر عداوت کو مجھ پر بے نیام کیا، اور میرے لئے اپنی چھری کی دھار کو باریک اور اپنی تندی و سختی کی باڑ کو تیز کیا، اور پانی میں میرے لئے مہلک زہروں کی آمیزش کی، اور کمانوں میں تیروں کو جوڑ کر مجھے نشانہ کی زد پر رکھ لیا، اور ان کی تعاقب کرنے والی نگاہیں مجھ سے ذرا غافل نہ ہوئیں، اور دل میں میری ایذارسانی کے منصوبے باندھتے اور تلخ جرعوں کی تلخی سے مجھے پیہم تلخ کام بناتے رہے۔

اَنْ یَسُوْمَنِی الْمَكْرُوْهَ، وَ یُجَرِّعَنِیْ زُعَاقَ مَرَارَتِهٖ.

تو اے میرے معبود! ان رنج و آلام کی برداشت سے میری کمزوری، اور مجھ سے آمادہ پیکار ہونے والوں کے مقابلہ میں انتقام سے میری عاجزی، اور کثیر التعداد دشمنوں اور ایذا رسانی کیلئے گھات لگانے والوں کے مقابلہ میں میری تنہائی، تیری نظر میں تھی جس کی طرف سے میں غافل اور بے فکر تھا کہ تو نے میری مدد میں پہل اور اپنی قوت اور طاقت سے میری کمر مضبوط کی، پھر یہ کہ اس کی تیزی کو توڑ دیا، اور اس کے کثیر ساتھیوں (کو منتشر کرنے) کے بعد اسے یکہ و تنہا کر دیا، اور مجھے اس پر غلبہ و سربلندی عطا کی، اور جو تیر اس نے اپنی کمان میں جوڑے تھے وہ اسی کی طرف پلٹا دیئے، چنانچہ اس حالت میں تو نے اسے پلٹا دیا کہ نہ تو وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کر سکا اور نہ اس کے دل کی تپش فرو ہو سکی، اس نے اپنی بوٹیاں کاٹیں، اور پیٹھ پھرا کر چلا گیا، اور اس کے لشکر والوں نے بھی اسے دغا دی۔

فَنَظَرْتَ- یَاۤ اِلٰهِیْۤ- اِلٰى ضَعْفِیْ عَنِ احْتِمَالِ الْفَوَادِحِ، وَ عَجْزِیْ عَنِ الِانْتِصَارِ مِمَّنْ قَصَدَنِیْ بِمُحَارَبَتِهٖ، وَ وَحْدَتِیْ فِیْ كَثِیْرِ عَدَدِ مَنْ نَاوَانِیْ، وَ اَرْصَدَ لِیْ بِالْبَلَآءِ فِیْمَا لَمْ اُعْمِلْ فِیْهِ فِكْرِیْ، فَابْتَدَاْتَنِیْ بِنَصْرِكَ، وَ شَدَدْتَّ اَزْرِیْ بِقُوَّتِكَ، ثُمَّ فَلَلْتَ لِیْ حَدَّهٗ، وَ صَیَّرْتَهٗ مِن بَعْدِ جَمْعٍ عَدِیْدٍ وَّحْدَهٗ، وَ اَعْلَیْتَ كَعْبِیْ عَلَیْهِ، وَ جَعَلْتَ مَا سَدَّدَهٗ مَرْدُوْدًا عَلَیْهِ، فَرَدَدْتَّهٗ لَمْ یَشْفِ غَیْظَهٗ، وَ لَمْ یَسْكُنْ غَلِیْلُهٗ، قَدْ عَضَّ عَلٰى شَوَاهُ وَ اَدْبَرَ مُوَلِّیًا قَدْ اَخْلَفَتْ سَرَایَاهُ.

اور کتنے ہی ایسے ستمگر تھے جنہوں نے اپنے مکر و فریب سے مجھ پر ظلم و تعدی کی، اور اپنے شکار کے جال میرے لئے بچھائے، اور اپنی نگاہ جستجو کا مجھ پر پہرا لگا دیا، اور اس طرح گھات لگا کر بیٹھ گئے جس طرح درندہ اپنے شکار کے انتظار میں موقع کی تاک میں گھات لگا کر بیٹھتا ہے، درآنحالیکہ وہ میرے سامنے خوشامدانہ طور پر خندہ پیشانی سے پیش آتے، اور (در پردہ) انتہائی کینہ توز نظروں سے مجھے دیکھتے، تو جب اے خدائے بزرگ و برتر تو نے ان کی بد باطنی و بدسرشتی کو دیکھا تو انہیں سر کے بل انہی کے گڑھے میں الٹ دیا، اور انہیں انہی کے غار کے گہراؤ میں پھینک دیا، اور جس جال میں مجھے گرفتار دیکھنا چاہتے تھے خود ہی غرور و سربلندی کا مظاہرہ کرنے کے بعد ذلیل ہو کر اس کے پھندوں میں جا پڑے، اور سچ تو یہ ہے کہ اگر تیری رحمت شریک حال نہ ہوتی تو کیا بعید تھا کہ جو بلا و مصیبت ان پر ٹوٹ پڑی ہے وہ مجھ پر ٹوٹ پڑتی۔

وَ كَمْ مِّن بَاغٍ بَغَانِیْ بِمَكَآئِدِهٖ، وَ نَصَبَ لِیْ شَرَكَ مَصَآئِدِهٖ، وَ وَكَّلَ بِیْ تَفَقُّدَ رِعَایَتِهٖ، وَ اَضْبَاَ اِلَیَّ اِضْبَآءَ السَّبُعِ لِطَرِیْدَتِهٖ، انْتِظَارًا لِّانْتِهَازِ الْفُرْصَةِ لِفَرِیْسَتِهٖ، وَ هُوَ یُظْهِرُ لِیْ بَشَاشَةَ الْمَلَقِ، وَ یَنْظُرُنِیْ عَلٰى شِدَّةِ الْحَنَقِ، فَلَمَّا رَاَیْتَ- یَاۤ اِلٰهِیْ تَبَارَكْتَ وَ تَعَالَیْتَ- دَغَلَ سَرِیْرَتِهٖ، وَ قُبْحَ مَا انْطَوٰى عَلَیْهِ، اَرْكَسْتَهٗ لِاُمِّ رَاْسِهٖ فِیْ زُبْیَتِهٖ، وَ رَدَدْتَّهٗ فِیْ مَهْوٰى حُفْرَتِهٖ، فَانْقَمَعَ بَعْدَ اسْتِطَالَتِهٖ ذَلِیْلًا فِیْ رِبَقِ حِبَالَتِهِ الَّتِیْ كَانَ یُقَدِّرُ اَنْ یَّرَانِیْ فِیْهَا، وَ قَدْ كَادَ اَنْ یَّحُلَّ بِیْ لَوْ لَا رَحْمَتُكَ مَا حَلَّ بِسَاحَتِهٖ.

اور کتنے ہی ایسے حاسد تھے جنہیں میری وجہ سے غم و غصہ کے اچھو اور غیظ و غضب کے گلو گیر پھندے لگے، اور اپنی تیز زبانی سے مجھے اذیت دیتے رہے، اور اپنے عیوب کے ساتھ مجھے متہم کر کے طیش دلاتے رہے، اور میری آبرو کو اپنے تیروں کا نشانہ بنایا، اور جن بری عادتوں میں وہ خود ہمیشہ مبتلا رہے وہ میرے سر منڈھ دیں، اور اپنی فریب کاریوں سے مجھے مشتعل کرتے، اور اپنی دغا بازیوں کے ساتھ میری طرف پر تولتے رہے، تو میں نے اے میرے اللہ تجھ سے فریاد رسی چاہتے ہوئے اور تیری جلد حاجت روائی پر بھروسا کرتے ہوئے تجھے پکارا، درآنحالیکہ یہ جانتا تھا کہ جو تیرے سایہ حمایت میں پناہ لے گا وہ شکست خوردہ نہیں ہو گا، اور جو تیرے انتقام کی پناہ گاہ محکم میں پناہ گزیں ہو گا وہ ہراساں نہیں ہو گا، چنانچہ تو نے اپنی قدرت سے ان کی شدت و شرانگیزی سے مجھے محفوظ کر دیا۔

وَ كَمْ مِّنْ حَاسِدٍ قَدْ شَرِقَ بِیْ بِغُصَّتِهٖ، وَ شَجِیَ مِنِّیْ بِغَیْظِهٖ، وَ سَلَقَنِیْ بِحَدِّ لِسَانِهٖ، وَ وَحَرَنِیْ بِقَرْفِ عُیُوْبِهٖ، وَ جَعَلَ عِرْضِیْ غَرَضًا لِّمَرَامِیْهِ، وَ قَلَّدَنِیْ خِلَالًا لَّمْ تَزَلْ فِیْهِ، وَ وَحَرَنِیْ بِكَیْدِهٖ، وَ قَصَدَنِیْ بِمَكِیْدَتِهٖ، فَنَادَیْتُكَ- یَاۤ اِلٰهِیْ- مُسْتَغِیْثًا بِكَ، وَاثِقًا بِسُرْعَةِ اِجَابَتِكَ، عَالِمًاۤ اَنَّهٗ لَا یُضْطَهَدُ مَنْ اَوٰى اِلٰى ظِلِّ كَنَفِكَ، وَ لَا یَفْزَعُ مَنْ لَّجَاَ اِلٰى مَعْقِلِ انْتِصَارِكَ، فَحَصَّنْتَنِیْ مِن بَاْسِهٖ بِقُدْرَتِكَ.

اور کتنے ہی مصیبتوں کے ابر (جو میرے افق زندگی پر چھائے ہوئے) تھے تو نے چھانٹ دیئے، اور کتنے ہی نعمتوں کے بادل برسا دیئے، اور کتنی ہی رحمت کی نہریں بہا دیں، اور کتنے ہی صحت و عافیت کے جامے پہنا دیئے، اور کتنی ہی آلام و حوادث کی آنکھیں (جو میری طرف نگران تھیں) تو نے بے نور کر دیں، اور کتنے ہی غموں کے تاریک پردے (میرے دل پر سے) اٹھا دیئے۔

وَ كَمْ مِّنْ سَحَآئِبِ مَكْرُوْهٍ جَلَّیْتَهَا عَنِّیْ، وَ سَحَآئِبِ نِعَمٍ اَمْطَرْتَهَا عَلَیَّ، وَ جَدَاوِلِ رَحْمَةٍ نَشَرْتَهَا، وَ عَافِیَةٍ اَلْبَسْتَهَا، وَ اَعْیُنِ اَحْدَاثٍ طَمَسْتَهَا، وَ غَوَاشِیْ كُرُبَاتٍ كَشَفْتَهَا. وَ كَمْ مِّنْ ظَنٍّ حَسَنٍ حَقَّقْتَ، وَ عَدَمٍ جَبَرْتَ، وَ صَرْعَةٍ اَنْعَشْتَ، وَ مَسْكَنَةٍ حَوَّلْتَ.

اور کتنے ہی اچھے گمانوں کو تو نے سچ کر دیا، اور کتنی ہی تہی دستیوں کا تو نے چارہ کیا، اور کتنی ہی ٹھوکروں کو تو نے سنبھالا، اور کتنی ہی ناداریوں کو تو نے (ثروت سے) بدل دیا۔

كُلُّ ذٰلِكَ اِنْعَامًا وَّ تَطَوُّلًا مِّنْكَ، وَ فِیْ جَمِیْعِهِ انْهِمَاكًا مِّنِّیْ عَلٰى مَعَاصِیْكَ، لَمْ تَمْنَعْكَ اِسَآءَتِیْ عَنْ اِتْمَامِ اِحْسَانِكَ، وَ لَا حَجَرَنِیْ ذٰلِكَ عَنِ ارْتِكَابِ مَسَاخِطِكَ، لَا تُسْئَلُ عَمَّا تَفْعَلُ.

(بارالٰہا!) یہ سب تیری طرف سے انعام و احسان ہے، اور میں ان تمام واقعات کے باوجود تیری معصیتوں میں ہمہ تن منہمک رہا، (لیکن) میری بداعمالیوں نے تجھے اپنے احسانات کی تکمیل سے روکا نہیں، اور نہ تیرا فضل و احسان مجھے ان کاموں سے جو تیری ناراضگی کا باعث ہیں باز رکھ سکا، اور جو کچھ تو کرے اس کی بابت تجھ سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔

وَ لَقَدْ سُئِلْتَ فَاَعْطَیْتَ، وَ لَمْ تُسْئَلْ فَابْتَدَاْتَ، وَ اسْتُمِیْحَ فَضْلُكَ فَمَاۤ اَكْدَیْتَ، اَبَیْتَ- یَا مَوْلَایَ- اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ امْتِنَانًا وَّ تَطَوُّلًا وَّ اِنْعَامًا، وَ اَبَیْتُ اِلَّا تَقَحُّمًا لِّحُرُمَاتِكَ، وَ تَعَدِّیًا لِّحُدُوْدِكَ، وَ غَفْلَةً عَنْ وَّعِیْدِكَ.

تیری ذات کی قسم! جب بھی تجھ سے مانگا گیا تو نے عطا کیا، اور جب نہ مانگا گیا تو تو نے ازخود دیا، اور جب تیرے فضل و کرم کیلئے جھولی پھیلائی گئی تو تو نے بخل سے کام نہیں لیا، اے میرے مولا و آقا! تو نے کبھی احسان و بخشش اور تفضّل و انعام سے دریغ نہیں کیا، اور میں تیرے محرمات میں پھاندتا تیرے حدود و احکام سے متجاوز ہوتا، اور تیری تہدید و سرزنش سے ہمیشہ غفلت کرتا رہا۔

فَلَكَ الْحَمْدُ- اِلٰهِیْ- مِنْ مُّقْتَدِرٍ لَّا یُغْلَبُ، وَ ذِیْۤ اَنَاةٍ لَّا یَعْجَلُ.

اے میرے معبود! تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے جو ایسا صاحب اقتدار ہے جو مغلوب نہیں ہو سکتا اور ایسا بردبار ہے جو جلدی نہیں کرتا۔

هٰذَا مَقَامُ مَنِ اعْتَرَفَ بِسُبُوْغِ النِّعَمِ، وَ قَابَلَهَا بِالتَّقْصِیْرِ، وَ شَهِدَ عَلٰى نَفْسِهٖ بِالتَّضْیِیْعِ.

یہ اس شخص کا موقف ہے جس نے تیری نعمتوں کی فراوانی کا اعتراف کیا ہے، اور ان نعمتوں کے مقابلہ میں کوتاہی کی ہے، اور اپنے خلاف اپنی زیاں کاری کی گواہی دی ہے۔

اَللّٰهُمَّ فَاِنِّیْۤ اَتَقَرَّبُ اِلَیْكَ بِالْمُحَمَّدِیَّةِ الرَّفِیْعَةِ، وَ الْعَلَوِیَّةِ الْبَیْضَآءِ، وَ اَتَوَجَّهٗۤ اِلَیْكَ بِهِمَاۤ اَنْ تُعِیْذَنِیْ مِنْ شَرِّ كَذَا وَ كَذَا، فَاِنَّ ذٰلِكَ لَا یَضِیْقُ عَلَیْكَ فِیْ وُجْدِكَ، وَ لَا یَتَكَاَّدُكَ فِیْ قُدْرَتِكَ، وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْ‏ءٍ قَدِیْرٌ.

اے میرے معبود! میں محمدﷺ کی منزلت بلند پایہ اور علی علیہ السلام کے مرتبہ روشن و درخشاں کے واسطہ سے تجھ سے تقرب کا خواستگار ہوں، اور ان دونوں کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوں، تاکہ مجھے ان چیزوں کی برائی سے پناہ دے جن سے پناہ طلب کی جاتی ہے، اس لئے کہ یہ تیری تونگری و وسعت کے مقابلہ میں دشوار اور تیری قدرت کے آگے کوئی مشکل کام نہیں ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔

فَهَبْ لِیْ- یَاۤ اِلٰهِیْ- مِنْ رَّحْمَتِكَ وَ دَوَامِ تَوْفِیْقِكَ مَاۤ اَتَّخِذُهٗ سُلَّمًاۤ اَعْرُجُ بِهٖ اِلٰى رِضْوَانِكَ، وَ اٰمَنُ بِهٖ مِنْ عِقَابِكَ، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

لہٰذا تو اپنی رحمت اور دائمی توفیق سے مجھے بہرہ مند فرما کہ جسے زینہ قرار دے کہ تیری رضا مندی کی سطح پر بلند ہو سکوں، اور اس کے ذریعہ تیرے عذاب سے محفوظ رہوں، اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے!۔

–٭٭–

یہ دُعا ’’دُعائے جوشن صغیر‘‘ کے نام سے موسوم ہے جو دشمن کی ایذا رسانیوں اور اذیت کوشیوں سے محفوظ رہنے کیلئے پڑھی جاتی ہے۔ دنیا میں ہر شخص کے خیرخواہ بھی ہوتے ہیں بدخواہ بھی، دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی اور وہ فطرةً دشمن کی چیرہ دستیوں سے بچنے کیلئے چارہ جوئی کرتا اور طبیعت میں غیظ و غضب کی آگ سلگتی ہے تو انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے، مگر خاصان خدا صرف اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے اور اس کے دامن حفظ و حمایت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اور جب دشمنوں کی کثرت اور دوستوں کی قلت اور انتہائی قلت ہو تو اس کے سوا چارہ کار ہی کیا ہے۔

امام علیہ السلام کا دور حیات کچھ ایسا ہی دور تھا جس میں عفریت بلا منہ کھولے بیٹھا تھا اور مصائب و آلام کے سیلاب امڈے چلے آ رہے تھے۔ ایک طرف فتنہ ابن زبیر سر اٹھائے ہوئے تھا جس میں بنی ہاشم ہی اس کے ظلم و تشدد کا نشانہ تھے اور دوسری طرف اموی اقتدار محیط تھا جس کے مظالم کا نشانہ عام رعایا تو تھی ہی مگر اہل بیت نبوت علیہم السلام خصوصی ہدف تھے اور حکومت کی اس روش کی وجہ سے ایک ایسا ماحول بن گیا تھا جہاں دوست بھی کھل کر دوستی کا اظہار نہ کر سکتے تھے اور آمد و رفت اور ملنے جلنے سے ہچکچاتے تھے۔ حالانکہ سانحہ کربلا کے بعد امام علیہ السلام کی زندگی ایک خاموش زندگی تھی۔ نہ عمال حکومت سے ربط و ضبط، نہ ملکی معاملات سے سرو کار۔ دنیا سے بس اتنا لگاؤ جتنا زندگی کے لمحات گزارنے کیلئے ضروری تھا۔

سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ:

مَا رَاَیْتُہٗ ضَاحِکًا یَوْمًا قَطُّ.

میں نے کسی دن بھی ان کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ [۱]

آپؑ کی ایک کنیز سے آپؑ کے متعلق دریافت کیا گیا تو اس نے کہا:

مَاۤ اَتَيْتُهٗ بِطَعَامٍ نَّهَارًاً قَطُّ، وَ مَا فَرَشْتُ لَهُ فِرَاشًا بِلَيْلٍ قَطُّ.

میں نے کبھی ان کے سامنے دن کو کھانا پیش نہیں کیا اور رات کو کبھی بستر نہیں بچھایا۔ [۲]

مگر اس کے باوجود ہر طرح کی تحقیر و تذلیل اور تشدد آمیز برتاؤ روا رکھا جاتا تھا۔

چنانچہ متعدد مؤرخین نے لکھا ہے کہ عبدالملک نے حکم دے دیا کہ آپؑ کو بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر شام پہنچا دیا جائے۔ جس پر آپؑ کو زنجیروں میں جکڑ لیا گیا۔ زہری کا بیان ہے کہ: جب میں نے حضرتؑ کو اس عالم میں دیکھا کہ آپؑ کے ہاتھ پاؤں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور عبدالملک کے آدمیوں کا پہرا گرد ہے تو بے ساختہ میرے آنسو نکل آئے اور فوراً عبد الملک کے پاس روانہ ہو گیا اور اس سے کہا کہ:

لَيْسَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَيْنِ حَيْثُ تَظُنُّ، اِنَّهٗ مَشْغُوْلٌۢ بِربِّہٖ.

اے امیر! علی ابن الحسین علیہ السلام کے متعلق تمہارا گمان درست نہیں ہے۔ وہ تو ہر وقت اپنے پروردگار کی عبادت و اطاعت میں مصروف رہتے ہیں۔ [۳]

اس واقعہ کے بعد آپؑ کو امان حاصل ہوئی۔

یونہی اگر کوئی عقیدت کی بنا پر زبان کھولتا تو وہ مورد عتاب قرار پا جاتا۔ چنانچہ فرزدق کا واقعہ ہے کہ جب اس نے ہشام ابن عبد الملک کے تجاہل عارفانہ کے موقعہ پر اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس کا پہلا شعر یہ ہے:

هٰذَا الَّذِیْ تَعْرِفُ الْبَطْحَآءُ وَطْاَتَهٗ

وَ الْبَيْتُ يَعْرِفُهٗ وَ الْحِلُّ وَ الْحَرَمُ

”یہ وہ ہے جس کے قدموں کی چاپ کو سرزمین مکہ پہچانتی ہے اور جسے خانہ کعبہ اور حل و حرم بخوبی جانتے ہیں“۔[۴]

تو اس کا نام درباری شعراء کی فہرست سے کاٹ دیا گیا اور مقررہ وظیفہ بند کرنے کے بعد قید میں ڈال دیا گیا۔

اسی طرح ہشام ابن اسماعیل نے جو عبد الملک کے دور میں حاکم مدینہ اور بڑا ظالم و سفاک تھا، امام علیہ السلام کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں۔ چنانچہ تاریخ طبری میں ہے کہ:

لَقِیَ مِنْہُ عَلِیُّ ابْنُ الْحُسَیْنُ اَذًی شَدِیْدًا.

علی ابن حسین علیہ السلام نے اس کے ہاتھوں سخت اذیتیں اٹھائیں۔ [۵]

مگر اس ظلم و تشدد کے باوجود حضرتؑ نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا اور شکوہ کیا تو اس سے جو شکوہ و فریاد کو سنتا اور رنج و کرب کو دور کرتا ہے اور وہی ایک مظلوم و ستم رسیدہ کی آخری پناہ گاہ ہے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۵، ص ۲۷۷

[۲]۔ بحارالانوار، ج ۴۴، ص ۶۲

[۳]۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۴، ص ۱۳۲

[۴]۔ الارشاد، شیخ مفید، ج ۲، ص ۱۵۱

[۵]۔ تاریخ طبری، ج ۳، ص ۲۷۲

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button