98۔ میانہ روی
مَنْ تَرَكَ الْقَصْدَجَارَ۔ (نہج البلاغہ وصیت 31)
جو درمیانی راستہ چھوڑ دیتا ہے وہ بے راہ ہو جاتا ہے۔
دین اور دنیا میں کامیابی اُنہی لوگوں کو ملتی ہے جو میانہ روی اور اعتدال سے کام لیتے ہیں۔ افراط و تفریط ہمیشہ بدبختی و مشکلات کا سبب بنتے ہیں اور حدود کو پامال کرنے والے ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام زندگی کے سفر کے لیے ہمیشہ راہ اعتدال کی تاکید فرماتے ہیں۔ بات ہو یا عمل اس میں اعتدال ہی بہترین ذریعہ ہے۔
قرآن مجید نے اس اصول کو بارہا بیان کیا ہے امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے اسے اپنے لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔ یہ اصول زندگی کے ہر مرحلے اور شعبے میں اپنانا ضروری ہے۔ دین اور دنیا کی تقسیم کر کے لوگ ایک طرف کو لے لیتے ہیں اور دیندار یا دنیا دار کہلانے لگتے ہیں۔ افراد سے تعلقات میں ایک طرف کے غلام تو دوسری طرف کے لیے فرعون دکھائی دیتے ہیں۔
خرچ کرنے کے لحاظ سے اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں تو کچھ اپنی ضروریات میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں۔ یہ سب افراط و تفریط کہلاتا ہے اور امام علی علیہ السلام نے اس طریقہ سے خبردار کیا اور حد وسط کو اپنانے کی تاکید فرمائی۔