مظلومیتِ شیعہ
مظلومیتِ شیعہ
لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ . (حکمت:۱۱۱)
ترجمہ: اگر پہاڑ بھی مجھے دوست رکھے گا،تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔
سید رضی اس جملہ کے بعد لکھتے ہیں:
معنى ذلك أن المحنة تغلظ عليه فتسرع المصائب إليه و لا يفعل ذلك إلا بالأتقياء الأبرار و المصطفين الأخيار.
جو علیؑ سے محبت کرے اس کی آزمائش کڑی اورسخت ہوتی ہے ۔اس لیے مصیبتیں اُس کی طرف لپک کر بڑھتی ہیں اور ایسی آزمائش انہی کے لئے ہوتی ہے جو پرہیزگار،نیکو کار،منتخب اور برگزیدہ ہوتے ہیں۔
اس کے بعد کے جملے میں امام ؑ فرماتے ہیں:جو ہم اہل بیت سے محبت کرے،اسے فقر کا لباس پہننے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔
یاعلیؑ آپ سے محبت کی واقعاً سخت سزا ہے ۔ہر دور میں سخت سزا ہے ۔حجر و ابوذر سے شروع ہوتی ہے۔کمیل و قنبر سے آگے بڑھتی ہے اور آج تک جاری ہےکبھی گردنیں کٹتی ہیں کبھی گھر جلتے ہیں لیکن آپ کے چاہنے والے پہاڑ سے سخت تر ہیں۔
یا علیؑ!
پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہو کر ختم ہو جاتا ہےمگر آپ کے چاہنے والے کا خون آپ کے پیغام کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔
آپ کی محبت بہت بڑا جرم رہا اور اب بھی جرم گنا جاتا ہے اے امام! اس جرم کی سزائیں لوگوں نے مسکرا کر سینے سے لگائیں اور لگا رہے ہیں۔ یہ محبت ان سزاؤں سے چھینی نہیں جا سکتے کسی کی گولی و تلوار سے کیا چھنے گی۔
جبکہ خود امامؑ فرماتے ہیں:
’’اگر میں مومن کی ناک پرتلوار لگاؤں کہ مجھے دشمن رکھے تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہیں کرے گا۔اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے ،تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا۔اس لئے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر اُمی ؐ کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:اے علیؑ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا،اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا۔‘‘(حکمت:۴۵)
ان مشکلوں اور مظلومیتوں سے علی ؑکا پیغام ِ حق نہ رکا ہے اور نہ رکے گا۔ امیر المؤمنینؑ کا آج بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ پیغام ہے:
أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِهِ. (خطبہ:۱۹۹)
اے لوگو! ہدایت کی راہ میں ہدایت پانے والوں کی کمی سے گھبرا نہ جاؤ۔