صحیفہ کاملہ

54۔ رنج و اندوہ کے دور ہونے کی دعا

(۵۴) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِی اسْتِكْشَافِ الْهُمُوْمِ

غم و اندوہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے حضرت ؑ کی دُعا:

یَا فَارِجَ الْهَمِّ وَ كَاشِفَ الْغَمِّ، یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ رَحِیْمَهُمَا، صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ افْرُجْ هَمِّیْ وَ اكْشِفْ غَمِّیْ.

اے رنج و اندوہ کے برطرف کرنے والے اور غم و الم کے دور کرنے والے! اے دُنیا و آخرت میں رحم کرنے والے اور دونوں جہانوں میں مہربانی فرمانے والے! تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میری بےچینی کو دور اور میرے غم کو برطرف کر دے۔

یَا وَاحِدُ یَاۤ اَحَدُ یَا صَمَدُ، یَا مَنْ لَّمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ، اعْصِمْنِیْ وَ طَهِّرْنِیْ، وَ اذْهَبْ بِبَلِیَّتِیْ.

اے اکیلے! اے یکتا! اے بے نیاز! اے وہ جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے! میری حفاظت فرما، اور مجھے (گناہوں سے) پاک رکھ، اور میرے رنج و الم کو دور کر دے۔

{وَ اقْرَاْ اٰیَةَ الْكُرْسِیِّ وَ الْمُعَوِّذَتَیْنِ وَ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، وَ قُلْ:}

{اس مقام پر آیت الکرسی، قُل اعوذ بربّ النّاس، قل اعوذ بربّ الفلق اور قل ھو اللہ احد پڑھو اور یہ کہو:}

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَسْئَلُكَ سُؤَالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فَاقَتُهٗ، وَ ضَعُفَتْ قُوَّتُهٗ، وَ كَثُرَتْ ذُنُوْبُهٗ، سُؤَالَ مَنْ لَّا یَجِدُ لِفَاقَتِهٖ مُغِیْثًا، وَ لَا لِضَعْفِهٖ مُقَوِّیًا، وَ لَا لِذَنبِهٖ غَافِرًا غَیْرَكَ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِكْرَامِ اَسْئَلُكَ عَمَلًا تُحِبُّ بِهٖ مَنْ عَمِلَ بِهٖ، وَ یَقِیْنًا تَنْفَعُ بِهٖ مَنِ اسْتَیْقَنَ بِهٖ حَقَّ الْیَقِیْنَ فِیْ نَفَاذِ اَمْرِكَ.

بار الٰہا! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس شخص کا سا سوال جس کی احتیاج شدید، قوت و توانائی ضعیف اور گناہ فراوان ہوں، اس شخص کا سا سوال جسے اپنی حاجت کے موقع پر کوئی فریاد رس، جسے اپنی کمزوری کے عالم میں کوئی پشت پناہ، اور جسے تیرے علاوہ اے جلالت و بزرگی والے! کوئی گناہوں کا بخشنے والا دستیاب نہ ہو، (بار الٰہا!) میں تجھ سے اس عمل (کی توفیق) کا سوال کرتا ہوں کہ جو اس پر عمل پیرا ہو تو اسے دوست رکھے، اور ایسے یقین کا کہ جو اس کے ذریعہ تیرے فرمان قضا پر پوری طرح متیقن ہو تو اس کے باعث تو اسے فائدہ و منفعت پہنچائے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اقْبِضْ عَلَى الصِّدْقِ نَفْسِیْ، وَ اقْطَعْ مِنَ الدُّنْیَا حَاجَتِیْ، وَ اجْعَلْ فِیْمَا عِنْدَكَ رَغْبَتِیْ شَوْقًاۤ اِلٰى لِقَآئِكَ، وَ هَبْ لِیْ صِدْقَ التَّوَكُّلِ عَلَیْكَ، اَسْئَلُكَ مِنْ خَیْرِ كِتَابٍ قَدْ خَلَا، وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كِتَابٍ قَدْ خَلَا، اَسْئَلُكَ خَوْفَ الْعَابِدِیْنَ لَكَ، وَ عِبَادَةَ الْخَاشِعِیْنَ لَكَ، وَ یَقِیْنَ الْمُتَوَكِّلِیْنَ عَلَیْكَ، وَ تَوَكُّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَیْكَ.

اے اللہ محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے حق و صداقت پر موت دے، اور دنیا سے میری حاجت و ضرورت کا سلسلہ ختم کر دے، اور اپنی ملاقات کے جذبہ اشتیاق کی بنا پر اپنے ہاں کی چیزوں کی طرف میری خواہش و رغبت قرار دے، اور مجھے اپنی ذات پر صحیح اعتماد و توکل کی توفیق عطا فرما، میں تجھ سے سابقہ نوشتہ تقدیر کی بھلائی کا طالب ہوں اور سابقہ سرنوشتِ تقدیر کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیرے عبادت گزار بندوں کے خوف، عجز و فروتنی کرنے والوں کی عبادت، توکل کرنے والوں کے یقین اور ایمان داروں کے اعتماد و توکل کا تجھ سے خواستگار ہوں۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ رَغْبَتِیْ فِیْ مَسْئَلَتِیْ مِثْلَ رَغْبَةِ اَوْلِیَآئِكَ فِیْ مَسَآئِلِهِمْ، وَ رَهْبَتِیْ مِثْلَ رَهْبَةِ اَوْلِیَآئِكَ، وَ اسْتَعْمِلْنِیْ فِیْ مَرْضَاتِكَ عَمَلًا لَّاۤ اَتْرُكُ مَعَهٗ شَیْئًا مِّنْ دِیْنِكَ مَخَافَةَ اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ.

بار الٰہا! طلب و سوال میں میری خواہش و رغبت کو ایسا ہی قرار دے جیسی طلب و سوال میں تیرے دوستوں کی تمنا و خواہش ہوتی ہے، اور میرے خوف کو بھی اپنے دوستوں کے خوف کے مانند قرار دے، اور مجھے اپنی رضا و خوشنودی میں اس طرح بر سر عمل رکھ کہ میں تیرے مخلوقات میں سے کسی ایک کے خوف سے تیرے دین کی کسی بات کو ترک نہ کروں۔

اَللّٰهُمَّ هٰذِهٖ حَاجَتِیْ فَاَعْظِمْ فِیْهَا رَغْبَتِیْ، وَ اَظْهِرْ فِیْهَا عُذْرِیْ، وَ لَقِّنِّیْ فِیْهَا حُجَّتِیْ، وَ عَافِ فِیْهَا جَسَدِیْ.

اے اللہ! یہ میری حاجت ہے اس میں میری توجہ و رغبت کو عظیم کر دے، میرے عذر کو آشکارا کر، اور اس کے بارے میں مجھے دلیل و حجت کی تعلیم کر، اور اس میں میرے جسم کو صحت و سلامتی بخش۔

اَللّٰهُمَّ مَنْ اَصْبَحَ لَهٗ ثِقَةٌ اَوْ رَجَآءٌ غَیْرُكَ، فَقَدْ اَصْبَحْتُ وَ اَنْتَ ثِقَتِیْ وَ رَجَآئِیْ فِی الْاُمُوْرِ كُلِّهَا، فَاقْضِ لِیْ بِخَیْرِهَا عَاقِبَةً، وَ نَجِّنِیْ مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ، بِرَحْمَتِكَ یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

اے اللہ! جسے بھی تیرے سوا دوسرے پر بھروسا یا امید ہو تو میں اس عالم میں صبح کرتا ہوں کہ تمام امور میں تو ہی اعتماد و امید کا مرکز ہوتا ہے، لہٰذا جو امور بلحاظ انجام بہتر ہوں وہ میرے لئے نافذ فرما، اور مجھے اپنی رحمت کے وسیلہ سے گمراہ کرنے والے فتنوں سے چھٹکارا دے، اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

وَ صَلَّى اللّٰهُ عَلٰى سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰهِ الْمُصْطَفٰى وَ عَلٰۤى اٰلِهِ الطَّاهِرِیْنَ.

اور اللہ رحمت نازل کرے ہمارے سیّد و سردار، فرستادۂ خدا محمد مصطفیٰ ﷺ پر اور ان کی پاک و پاکیزہ آلؑ پر۔

–٭٭٭٭–

یہ دُعا ’’ہم و غم‘‘ اور ’’رنج و کرب‘‘ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ہے۔

دنیا میں ہر حساس آدمی کیلئے ایسے اسباب پیدا ہوتے رہتے ہیں جو دل و دماغ کو پراگندہ اور خیالات کو پاشان و پریشان کئے رہتے ہیں اور کسی طرح انسان ان ہموم و افکار سے بچ کر نہیں رہ سکتا اور اسے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر حوادث سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے۔ اور اگر ان حوادث و آلام کا زمانہ طولانی ہو جائے تو پھر اس طرح یاس و قنوطیت اس پر چھا جاتی ہے کہ اس کے حواس کو معطل کرکے اسے تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیتی ہے اور نتیجۃً نہ کسی کام میں اس کا جی لگتا ہے اور نہ دل جمعی سے کسی کام کو سر انجام دے سکتا ہے۔ ہر وقت دِل اچاٹ، طبیعت پریشان اور حواس پراگندہ سے رہتے ہیں۔ نہ کسبِ معاش میں جی لگتا ہے اور نہ عبادت و اطاعت پر دل آمادہ ہوتا ہے۔ اس لئے غم و اندوہ کی خلش اور فکر و اندیشہ کی کھٹک کا ازالہ ضروری اور اس کا تدارک لازمی ہے تا کہ انسان الجھنوں سے چھٹکارا پا کر دنیا و عقبی کا اہتمام و انصرام کر سکے۔

’’ہم‘‘ اور’’غم‘‘ میں فرق یہ ہے کہ جو فکر و اندیشہ مصیبت کے نازل ہونے سے پہلے ہو وہ ’’ہم‘‘ ہے اور جو مصیبت کے نازل ہونے کے بعد ہو وہ ’’غم‘‘ ہے۔ اور بعض کے نزدیک جس اندوہ و قلق کا چارہ ہو سکتا ہو وہ ’’ہم‘‘ ہے، جیسے فقر و افلاس، تنگی و عسرت اور جس کے تدارک پر انسان قادر نہ ہو وہ ’’غم‘‘ ہے، جیسے کسی عزیز کی موت۔

اس کا علاج یہ ہے کہ جو امور قابل تدارک ہیں اللہ پر بھروسا رکھتے ہوئے ان کا تدارک کرے۔ اس طرح کہ فقر و احتیاج کو دور کرنے کیلئے جو ذریعہ وہ اختیار کر سکتا ہے اسے اختیار کرے اور اگر اس میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تو صبر و شکر کا سر رشتہ ہاتھ سے نہ دے اور یہ خیال کرے کہ فکر و اندیشہ سے حالت بدل نہیں سکتی، لہٰذا جس حالت میں ہو حالات کے سازگار ہونے کی توقع رکھے۔ اور اگر اس رنج و اندوہ کا علاج اس کے ہاتھ میں نہیں ہے تو اس پر غم کرنا بھی بے نتیجہ ہو گا۔ مثلاً کسی عزیز کے مرنے کا صدمہ ہے تو یہ سوچے کہ مرنے والے نے ایک نہ ایک دن بہرحال جدا ہونا تھا اور اگر وہ جدا نہ ہوتا تو یہ مر کر اس سے جدا ہوتا۔ توجس سے جدا ہونا طے ہو اس کی جدائی پر اتنا صدمہ کیوں؟ کہ صبر و شکیب کے اجر کو کھو دیا جائے اور صبر و تحمل کے ثواب سے محروم رہا جائے جو اس سلب ہونے والی نعمت سے کہیں گراں قدر و گراں قیمت ہے۔ اس طرح نفس میں قوت اور دل میں ایک اطمینانی کیفیت پیدا ہو گی جو اس کیلئے تسلی و تسکین کا سامان فراہم کرے گی۔اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بہ دُعا بھی رہے کہ وہ غموں کے بادلوں کو چھانٹے اور رنج و اندوہ کی اندھیاریوں کو برطرف کرے اور غم دنیا کو بھلا کر غم آخرت کی یاد تازہ رکھنے کی توفیق دے۔

چنانچہ یہ دُعا ہمیں یہی تعلیم دیتی ہے کہ انسان دنیا کے افکار و ہموم سے بچنے کی تو کوشش کرے اور ان سے محفوظ رہنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے التجا کرے، مگر اپنے دل کو فکرِ آخرت سے غافل اور اندیشہ فردا سے خالی نہ ہونے دے۔ اور یہی فکر و اندیشہ وہ ہے جو حیات دینی کا تقاضا اور عبودیت کا لازمہ ہے اور اس کے ہوتے ہوئے دنیا کے افکار و ہموم خود ہی چھٹ جاتے ہیں اور دل جمعی و یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَنْ اَصْبَحَ وَ اَمْسٰى وَ الدُّنْيَا اَكْبَرُ هَمِّهٖ جَعَلَ اللّٰهُ تَعَالَى الْفَقْرَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ شَتَّتَ اَمْرَهٗ وَ لَمْ يَنَلْ مِنَ الدُّنْيَا اِلَّا مَا قَسَمَ اللّٰهُ لَهٗ، وَ مَنْ اَصْبَحَ وَ اَمْسٰى وَ الْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ هَمِّهٖ جَعَلَ اللّٰهُ الْغِنٰى فِیْ قَلْبِهٖ وَ جَمَعَ لَهٗۤ اَمْرَهٗ.

جو شخص اپنی زندگی کے صبح و شام اس طرح بسر کرے کہ اسے سب سے بڑی فکر دنیا ہی کی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے فقر و فاقہ ہی دکھاتا ہے اور اس کے معاملات کو پراگندہ کر دیتا ہے اور دنیا سے اسے وہی حاصل ہوتا ہے جو اس کے مقسوم میں ہوتا ہے۔ اور جو زندگی کے صبح و شام اس طرح گزارتا ہے کہ اسے سب سے بڑی فکر عقبیٰ کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں غنا و بے نیازی بھر دیتا ہے اور اس کے امور کو منظم فرما دیتا ہے۔ [۲]

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ الکافی، ج ۲، ص ۳۱۹

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button