52۔ تضرع و الحاح کے سلسلہ میں دعا
(۵۲) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِی الْاِلْحَاحِ عَلَى اللّٰهِ تَعَالٰى
اللہ تعالی سے طلب و الحاح کے سلسلہ میں حضرت ؑدُعا:
یَا اللّٰهُ الَّذِیْ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمآءِ، وَ كَیْفَ یَخْفٰى عَلَیْكَ- یَاۤ اِلٰهِیْ- مَاۤ اَنْتَ خَلَقْتَهٗ، وَ كَیْفَ لَا تُحْصِیْ مَاۤ اَنْتَ صَنَعْتَهٗ، اَوْ كَیْفَ یَغِیْبُ عَنْكَ مَاۤ اَنْتَ تُدَبِّرُهٗ، اَوْ كَیْفَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَّهْرُبَ مِنْكَ مَنْ لَّا حَیٰوةَ لَهٗ اِلَّا بِرِزْقِكَ، اَوْ كَیْفَ یَنْجُوْ مِنْكَ مَنْ لَّا مَذْهَبَ لَهٗ فِیْ غیْرِ مُلْكِكَ.
اے وہ معبود! جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، چاہے زمین میں ہو چاہے آسمان میں، اور اے میرے معبود! وہ چیزیں جنہیں تو نے پیدا کیا ہے وہ تجھ سے کیونکر پوشیدہ رہ سکتی ہیں؟ اور جن چیزوں کو تو نے بنایا ہے ان پر کس طرح تیرا علم محیط نہ ہو گا؟ اور جن چیزوں کی تو تدبیر و کارسازی کرتا ہے وہ تیری نظروں سے کس طرح اوجھل رہ سکتی ہیں؟ اور جس کی زندگی تیرے رزق سے وابستہ ہو وہ تجھ سے کیونکر راہ گریز اختیار کر سکتا ہے؟ یا جسے تیرے ملک کے علاوہ کہیں راستہ نہ ملے وہ کس طرح تجھ سے آزاد ہو سکتا ہے؟۔
سُبْحَانَكَ! اَخْشٰى خَلْقِكَ لَكَ اَعْلَمُهُمْ بِكَ، وَ اَخْضَعُهُمْ لَكَ اَعْمَلُهُمْ بِطَاعَتِكَ، وَ اَهْوَنُهُمْ عَلَیْكَ مَنْ اَنْتَ تَرْزُقُهٗ وَ هُوَ یَعْبُدُ غَیْرَكَ.
پاک ہے تو! جو تجھے زیادہ جاننے والا ہے وہی سب مخلوقات سے زیادہ تجھ سے ڈرنے والا ہے، اور جو تیرے سامنے سرافگندہ ہے وہی سب سے زیادہ تیرے فرمان پر کاربند ہے، اور تیری نظروں میں سب سے زیادہ ذلیل و خوار وہ ہے جسے تو روزی دیتا ہے اور وہ تیرے علاوہ دوسرے کی پرستش کرتا ہے۔
سُبْحَانَكَ! لَا یَنْقُصُ سُلْطَانَكَ مَنْ اَشْرَكَ بِكَ وَ كَذَّبَ رُسُلَكَ، وَ لَیْسَ یَسْتَطِیْعُ مَنْ كَرِهَ قَضَآءَكَ اَنْ یَّرُدَّ اَمْرَكَ، وَ لَا یَمْتَنِعُ مِنْكَ مَنْ كَذَّبَ بِقُدْرَتِكَ، وَ لَا یَفُوْتُكَ مَنْ عَبَدَ غَیْرَكَ، وَ لَا یُعَمَّرُ فِی الدُّنْیَا مَنْ كَرِهَ لِقَآءَكَ.
پاک ہے تو! جو تیرا شریک ٹھہرائے اور تیرے رسولوں کو جھٹلائے وہ تیری سلطنت میں کمی نہیں کر سکتا، اور جو تیرے حکم قضا و قدر کو ناپسند کرے وہ تو تیرے فرمان کو پلٹا نہیں سکتا، اور جو تیری قدرت کا انکار کرے وہ تجھ سے اپنا بچاؤ نہیں کر سکتا، اور جو تیرے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے وہ تجھ سے بچ نہیں سکتا، اور جو تیری ملاقات کو ناگوار سمجھے وہ دنیا میں زندگی جاوید حاصل نہیں کر لیتا۔
سُبْحَانَكَ! مَاۤ اَعْظَمَ شَاْنَكَ، وَ اَقْهَرَ سُلْطَانَكَ، وَ اَشَدَّ قُوَّتَكَ، وَ اَنْفَذَ اَمْرَكَ!.
پاک ہے تو! تیری شان کتنی عظیم، تیرا اقتدار کتنا غالب، تیری قوت کتنی مضبوط اور تیرا فرمان کتنا نافذ ہے۔
سُبْحَانَكَ! قَضَیْتَ عَلٰى جَمِیْعِ خَلْقِكَ الْمَوْتَ: مَنْ وَّحَّدَكَ وَ مَنْ كَفَرَ بِكَ، وَ كُلٌّ ذَآئِقُ الْمَوْتِ، وَ كُلٌّ صَآئِرٌ اِلَیْكَ، فَتَبَارَكْتَ وَ تَعَالَیْتَ، لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ، وَحْدَكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ، اٰمَنْتُ بِكَ، وَ صَدَّقْتُ رُسُلَكَ، وَ قَبِلْتُ كِتَابَكَ، وَ كَفَرْتُ بِكُلِّ مَعْبُوْدٍ غَیْرِكَ، وَ بَرِئْتُ مِمَّنْ عَبَدَ سِوَاكَ.
تو پاک و منزہ ہے! تو نے تمام خلق کیلئے موت کا فیصلہ کیا ہے، کیا کوئی تجھے یکتا جانے اور کیا کوئی تیرا انکار کرے، سب ہی موت کی تلخی چکھنے والے اور سب ہی تیری طرف پلٹنے والے ہیں، تو بابرکت اور بلند و برتر ہے، کوئی معبود نہیں مگر تو، تو ایک اکیلا ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے،میں تجھ پر ایمان لایا ہوں، تیرے رسولوں کی تصدیق کی ہے، تیری کتاب کو مانا ہے، تیرے علاوہ ہر معبود کا انکار کیا ہے، اور جو تیرے علاوہ دوسرے کی پرستش کرے اس سے بیزاری اختیار کی ہے۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اُصْبِحُ وَ اُمْسِیْ مُسْتَقِلًّا لِّعَمَلِیْ، مُعْتَرِفًا بِذَنبِیْ، مُقِرًّا بِخَطَایَایَ، اَنَا بِاِسْرَافِیْ عَلٰى نَفْسِیْ ذَلِیْلٌ، عَمَلِیْۤ اَهْلَكَنِیْ، وَ هَوَایَ اَرْدَانِیْ، وَ شَهَوَاتِیْ حَرَمَتْنِیْ.
بار الٰہا! میں اس عالم میں صبح و شام کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کو کم تصور کرتا، اپنے گناہوں کا اعتراف اور اپنی خطاؤں کا اقرار کرتا ہوں، میں اپنے نفس پر ظلم و زیادتی کے باعث ذلیل و خوار ہوں، میرے کردار نے مجھے ہلاک اور ہوائے نفس نے تباہ کر دیا ہے اور خواہشات نے (نیکی و سعادت سے) بے بہرہ کر دیا ہے۔
فَاَسْئَلُكَ یَا مَوْلَایَ سُؤَالَ مَنْ نَّفْسُهٗ لَاهِیَةٌ لِّطُوْلِ اَمَلِهٖ، وَ بَدَنُهٗ غَافِلٌ لِّسُكُوْنِ عُرُوْقِهٖ، وَ قَلْبُهٗ مَفْتُوْنٌ بِكَثْرَةِ النِّعَمِ عَلَیْهِ، وَ فِكْرُهٗ قَلِیْلٌ لِّمَا هُوَ صَآئِرٌ اِلَیْهِ، سُؤَالَ مَنْ قَدْ غَلَبَ عَلَیْهِ الْاَمَلُ، وَ فَتَنَهٗ الْهَوٰى، وَ اسْتَمْكَنَتْ مِنْهُ الدُّنْیَا، وَ اَظَلَّهٗ الْاَجَلُ، سُؤَالَ مَنِ اسْتَكْثَرَ ذُنُوْبَهٗ، وَ اعْتَرَفَ بِخَطِیْٓئَتِهٖ، سُؤَالَ مَنْ لَّا رَبَّ لَهٗ غَیْرُكَ، وَ لَا وَلِیَّ لَهٗ دُوْنَكَ، وَ لَا مُنْقِذَ لَهٗ مِنْكَ، وَ لَا مَلْجَاَ لَهٗ مِنْكَ اِلَّاۤ اِلَیْكَ.
اے میرے مالک !میں تجھ سے ایسے شخص کی طرح سوال کرتا ہوں جس کا نفس طولانی امیدوں کے باعث غافل، جسم صحت و تن آسانی کی وجہ سے بے خبر، دل نعمت کی فراوانی کے سبب خواہشوں پر وارفتہ اور فکر انجام کار کی نسبت کم ہو، میرا سوال اس شخص کے مانند ہے جس پر آرزوؤں نے غلبہ پا لیا ہو، جسے خواہشات نفس نے ورغلایا ہو، جس پر دنیا مسلط ہو چکی ہو اور جس کے سر پر موت نے سایہ ڈال دیا ہو، میرا سوال اس شخص کے سوال کے مانند ہے جو اپنے گناہوں کو زیادہ سمجھتا اور اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتا ہو، میرا سوال اس شخص کا سا سوال ہے جس کا تیرے علاوہ کوئی پروردگار اور تیرے سوا کوئی ولی و سرپرست نہ ہو، اور جس کا تجھ سے کوئی بچانے والا، اور نہ اس کیلئے تجھ سے سوا تیری طرف رجوع ہونے کے کوئی پناہ گاہ ہو۔
اِلٰهِیْۤ اَسْئَلُكَ بِحَقِّكَ الْوَاجِبِ عَلٰى جَمِیْعِ خَلْقِكَ، وَ بِاسْمِكَ الْعَظِیْمِ الَّذِیْۤ اَمَرْتَ رَسُوْلَكَ اَنْ یُّسَبِّحَكَ بِهٖ، وَ بِجَلَالِ وَجْهِكَ الْكَرِیْمِ، الَّذِیْ لَا یَبْلٰى وَ لَا یَتَغَیَّرُ، وَ لَا یَحُوْلُ وَ لَا یَفْنٰى، اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اَنْ تُغْنِیَنِیْ عَنْ كُلِّ شَیْءٍ بِعِبَادَتِكَ، وَ اَنْ تُسَلِّیَ نَفْسِیْ عَنِ الدُّنْیَا بِمَخَافَتِكَ، وَ اَنْ تُثْنِیَنِیْ بِالْكَثِیْرِ مِنْ كَرَامَتِكَ بِرَحْمَتِكَ، فَاِلَیْكَ اَفِرُّ، و مِنْكَ اَخَافُ، وَ بِكَ اَسْتَغِیْثُ، وَ اِیَّاكَ اَرْجُوْ، وَ لَكَ اَدْعُوْ، وَ اِلَیْكَ اَلْجَاُ، وَ بِكَ اَثِقُ، وَ اِیَّاكَ اَسْتَعِیْنُ، وَ بِكَ اُوْمِنُ، وَ عَلَیْكَ اَتَوَكَّلُ، وَ عَلٰى جُوْدِكَ وَ كَرَمِكَ اَتَّكِلُ.
بار الٰہا! میں تیرے اس حق کے واسطہ سے جو تیرے مخلوقات پر لازم و واجب ہے، اور تیرے اس بزرگ نام کے واسطہ سے جس کے ساتھ تو نے اپنے رسول کو تسبیح کرنے کا حکم دیا، اور تیری ذات بزرگوار کی بزرگی و جلالت کے وسیلہ سے کہ جو نہ کہنہ ہوتی ہے نہ متغیر نہ تبدیل ہوتی ہے نہ فنا، تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اپنی عبادت کے ذریعہ ہر چیز سے بے نیاز کر دے، اور اپنے خوف کی وجہ سے دنیا سے دل برداشتہ بنا دے، اور اپنی رحمت سے بخشش و کرامت کی فراوانی کے ساتھ مجھے واپس کر، اس لئے کہ میں تیری ہی طرف گریزاں، اور تجھ ہی سے ڈرتا ہوں، اور تجھ ہی سے فریاد رسی چاہتا ہوں، اور تجھ ہی سے امید رکھتا ہوں، اور تجھے ہی پکارتا ہوں، اور تجھ ہی سے پناہ چاہتا ہوں، اور تجھ ہی پر بھروسا کرتا ہوں، اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں، اور تجھ ہی پر ایمان لایا ہوں، اور تجھ ہی پر توکل رکھتا ہوں، اور تیرے ہی جود و کرم پر اعتماد کرتا ہوں۔
–٭٭–
یہ دُعا اللہ تعالیٰ سے طلب و الحاح کے سلسلہ میں ہے۔
’’الحاح‘‘ کے معنی طلب و سوال میں اصرار اور مسلسل و پیہم مانگنے کے ہیں۔ اگر یہ الحاح اللہ تعالیٰ سے ہو تو ممدوح اور قابل ستائش ہے اور بندوں سے ہو تو نہایت مذموم ہے۔ اول تو سوال ہی بری چیز ہے چہ جائیکہ اس میں الحاح کا بھی پہلو ہو۔ یہ دنائت نفس اور پستی ضمیر کی علامت ہے۔ اس سے انسان کی عزت داغدار اور حمیت و غیرت پامال ہو جاتی ہے۔ اس لئے اللہ سبحانہ اسے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے بندے اپنے ایسوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں اور ان کے سامنے گڑگڑائیں۔ بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے مانگیں تو اسی سے مانگیں اور الحاح و عاجزی کا ہاتھ پھیلائیں تو اسی کے آگے پھیلائیں۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ كَرِهَ اِلْحَاحَ النَّاسِ بَعْضِهِمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الْمَسْئَلَةِ وَ اَحَبَّ ذٰلِكَ لِنَفْسِهٖ، اِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُحِبُّ اَنْ يُّسْئَلَ وَ يُطْلَبَ مَا عِنْدَهٗ.
خداوند عالم آپس میں ایک دوسرے سے طلب و سوال میں الحاح و اصرار کو ناپسند کرتا ہے اور اپنے لئے اسے دوست رکھتا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر یہ چاہتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور اس کے ہاں کی چیزوں کو طلب کیا جائے۔ [۱]
بندہ جب اپنے معبود کے در پر دستک دیتا اسے پکارتا اور عجز و الحاح سے سوال کرتا ہے تو یہ اس کی دلیل ہے کہ اس کا احساس عبودیت زندہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے حسن ظن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اور شیوۂ عبودیت یہی ہے کہ وہ پیہم اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اپنی حاجتیں اس کے سامنے پیش کرے اور کسی حالت میں مایوس نہ ہو، خواہ قبولیتِ دُعا میں کتنی دیر ہو جائے۔ کیونکہ امید و رجاء کے جلو میں اس سے بار بار طلب کرنا خود ایک عبادت اور پسندیدہ عمل ہے جس سے غفلت کرنا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت سے محروم ہونا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
رَحِمَ اللّٰهُ عَبْدًا طَلَبَ مِنَ اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ حَاجَةً فَاَلَحَّ فِی الدُّعَآءِ، اسْتُجِيْبَ لَهٗ اَوْ لَمْ يُسْتَجَبْ.
خدا اس بندے پر رحم کرے جو خدائے بزرگ و برتر سے کوئی حاجت طلب کرتا ہے تو بار بار دُعا کرتا ہے۔ چاہے اس کی دُعا قبول ہو یا نہ ہو۔ [۲]
دُعا کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اس کے پردہ میں اللہ تعالیٰ سے لو لگی رہے۔ اور بعض چیزوں کو دُعا سے وابستہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ انسان ان کے حصول کیلئے دُعا و الحاح کرتا رہے اور گڑگڑانے اور لپٹنے سے اس کے خزانہ پر تو کوئی اثر پڑتا نہیں کہ اسے ناگوار گزرے اور نہ داد و دہش سے اس کے ہاں کمی ہوتی ہے کہ کسی کے بار بار مانگنے سے وہ رنجیدہ و کبیدہ خاطر ہو۔ کیونکہ کمی بیشی کا سوال وہاں ہوتا ہے جہاں سرمایہ محدود ہو اور جس کے مقدورات کی کوئی حد و نہایت ہی نہ ہو اس کیلئے کمی بیشی کے معنی ہی کیا۔ اور پھر یہ کہ کمی بیشی احتیاج کی علامت ہے اور وہ غنی مطلق ہے جس کے ہاں نہ عطا کرنے سے کمی اور نہ روک لینے سے اضافہ ہوتا ہے۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ الکافی، ج ۲، ص ۴۷۵
[۲]۔ وسائل الشیعہ، ج ۷، ص ۵۹