جنازہ سے درس
جنازہ سے درس
وَ تَبِعَ جِنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا يَضْحَكُ فَقَالَ كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ وَ كَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ وَ كَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الْأَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيلٍ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ وَ نَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ ثُمَّ قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظٍ وَ وَاعِظَةٍ وَ رُمِينَا بِكُلِّ فَادِحٍ وَ جَائِحَةٍ . (حکمت ۱۲۲)
ترجمہ: حضرت ایک جنازہ کے پیچھے جا رہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپ نے فرمایا: گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے لکھی گئی ہے اور گویا یہ حق (موت )دوسروں ہی پر لازم ہے اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں ،وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے۔ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔پھر یہ کہ ہم نے ہر پندو نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عورت بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں۔
امیر المؤمنینؑ نے جنازہ میں ہنسنے کی آواز کو سن کر خود جنازے کو موعظہ کا ذریعہ بنایاموت سب کے لئے ہے ،موت کی تیاری اور واجبات کی ادائیگی سب کو کرنی چاہئے اور موت کی آغوش میں جا کر پھر کوئی کبھی پلٹا بھی نہیں ہے۔
اس پورے فرمان میں موت کے یقینی ہونے پر تاکید فرماتے رہے اور آخری جملات میں تو موت اور اس جیسی دوسری آفات کو واعظ اور واعظہ کے نام سے یاد فرمایا۔
امامؑ بارہا موت کو،مردوں کو ،قبروں کو واعظ کہہ کر یاد فرماتے ہیں۔
امامؑ کا قبر والوں کو ایک سلام اگر سمجھ لیا جائے تو اس دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لئے کافی ہے۔
صفین کے افسوس ناک میدان سے پلٹ کر اورعمار یاسر جیسے پیاروں کو دفن کر کے جب امامؑ کوفہ پہنچے اورکوفہ کے دروازے پر موجود قبرستان پر نظر پڑی۔ تو سات جملوں میں قبر والوں کو سلام کہا۔یہ سلام تو قبر والوں کوتھا مگر وہاں موجود اور قیامت تک اس سلام کو سننے اور پڑھنےوالوں کے لئے اس میں ایک درد بھرا موعظہ ہے۔فرمایا:
يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ وَ الْمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ وَ الْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ وَ نَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وَ أَمَّا الْأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ وَ أَمَّا الْأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ هَذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ لَأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى.. (حکمت ۱۳۰)
صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:
ترجمہ: اے وحشت افزا گھروں، اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو!اے خاک نشینو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو !تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں۔اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے۔اب تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے؟۔
(پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا)اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے۔تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔
پھر امامؑ نے ایک مسلمہ حقیقت کو دو جملوں میں پرو دیا، فرمایا:
’’أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ وَ نَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ‘‘
تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں۔
پھر امام ؑ نے قبر والوں کو ان کے جانے کے بعد اس دنیا کی بے وفائی کی خبر یوں سنائی:
’’ أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وَ أَمَّا الْأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ وَ أَمَّا الْأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ‘‘ اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے۔
آخر میں امامؑ نے وہاں موجود اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر قبر والوں کی طرف سے پیغام سنایا اور قرآن مجید کی آیت کی تلاوت کی:
أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى. بہترین توشہ تقویٰ ہے۔
انسان کو زندگی میں دھوکہ دینے اور خدا سے دور کرنے والے مواعظ کو امام ؑ نے اس سلام میں جمع کر دیا ۔ ہمیں بھی جب غفلت کی اونگھ آنے لگے تو قبر والوں کے پاس جا کر اس سلام کو دہرا لیں تو یقیناً بیدار ہو جائیں گے۔اس سلام کا کیا ہی پیارا ترجمہ جوش ملیح آبادی مرحوم نے کیا:
جا گورِ غریباں پہ نظر ڈال بہ عبرت کُھل جائے گی تجھ پر تِری دنیا کی حقیقت
عبرت کے لئے ڈھونڈ کسی شاہ کی تربت اور پوچھ کدھر ہے وہ تری شانِ حکومت
کل تجھ میں بھرا تھا جو غرور آج کہاں ہے؟ اے کاسۂ ِ سر بول ترا تاج کہاں ہے؟
جوش ملیح آبادی (مرثیہ :آوازۂ حق۔بند ۴۹)
وَ تَبِعَ جِنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا يَضْحَكُ فَقَالَ كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ وَ كَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ وَ كَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الْأَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيلٍ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ وَ نَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ ثُمَّ قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظٍ وَ وَاعِظَةٍ وَ رُمِينَا بِكُلِّ فَادِحٍ وَ جَائِحَةٍ . (حکمت ۱۲۲)
ترجمہ: حضرت ایک جنازہ کے پیچھے جا رہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپ نے فرمایا: گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے لکھی گئی ہے اور گویا یہ حق (موت )دوسروں ہی پر لازم ہے اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں ،وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے۔ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔پھر یہ کہ ہم نے ہر پندو نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عورت بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں۔
امیر المؤمنینؑ نے جنازہ میں ہنسنے کی آواز کو سن کر خود جنازے کو موعظہ کا ذریعہ بنایاموت سب کے لئے ہے ،موت کی تیاری اور واجبات کی ادائیگی سب کو کرنی چاہئے اور موت کی آغوش میں جا کر پھر کوئی کبھی پلٹا بھی نہیں ہے۔
اس پورے فرمان میں موت کے یقینی ہونے پر تاکید فرماتے رہے اور آخری جملات میں تو موت اور اس جیسی دوسری آفات کو واعظ اور واعظہ کے نام سے یاد فرمایا۔
امامؑ بارہا موت کو،مردوں کو ،قبروں کو واعظ کہہ کر یاد فرماتے ہیں۔
امامؑ کا قبر والوں کو ایک سلام اگر سمجھ لیا جائے تو اس دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لئے کافی ہے۔
صفین کے افسوس ناک میدان سے پلٹ کر اورعمار یاسر جیسے پیاروں کو دفن کر کے جب امامؑ کوفہ پہنچے اورکوفہ کے دروازے پر موجود قبرستان پر نظر پڑی۔ تو سات جملوں میں قبر والوں کو سلام کہا۔یہ سلام تو قبر والوں کوتھا مگر وہاں موجود اور قیامت تک اس سلام کو سننے اور پڑھنےوالوں کے لئے اس میں ایک درد بھرا موعظہ ہے۔فرمایا:
يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ وَ الْمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ وَ الْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ وَ نَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وَ أَمَّا الْأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ وَ أَمَّا الْأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ هَذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ لَأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى.. (حکمت ۱۳۰)
صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:
ترجمہ: اے وحشت افزا گھروں، اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو!اے خاک نشینو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو !تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں۔اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے۔اب تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے؟۔
(پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا)اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے۔تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔
پھر امامؑ نے ایک مسلمہ حقیقت کو دو جملوں میں پرو دیا، فرمایا:
’’أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ وَ نَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ‘‘
تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں۔
پھر امام ؑ نے قبر والوں کو ان کے جانے کے بعد اس دنیا کی بے وفائی کی خبر یوں سنائی:
’’ أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وَ أَمَّا الْأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ وَ أَمَّا الْأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ‘‘ اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہو چکا ہے۔
آخر میں امامؑ نے وہاں موجود اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر قبر والوں کی طرف سے پیغام سنایا اور قرآن مجید کی آیت کی تلاوت کی:
أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى. بہترین توشہ تقویٰ ہے۔
انسان کو زندگی میں دھوکہ دینے اور خدا سے دور کرنے والے مواعظ کو امام ؑ نے اس سلام میں جمع کر دیا ۔ ہمیں بھی جب غفلت کی اونگھ آنے لگے تو قبر والوں کے پاس جا کر اس سلام کو دہرا لیں تو یقیناً بیدار ہو جائیں گے۔اس سلام کا کیا ہی پیارا ترجمہ جوش ملیح آبادی مرحوم نے کیا:
جا گورِ غریباں پہ نظر ڈال بہ عبرت کُھل جائے گی تجھ پر تِری دنیا کی حقیقت
عبرت کے لئے ڈھونڈ کسی شاہ کی تربت اور پوچھ کدھر ہے وہ تری شانِ حکومت
کل تجھ میں بھرا تھا جو غرور آج کہاں ہے؟ اے کاسۂ ِ سر بول ترا تاج کہاں ہے؟
جوش ملیح آبادی (مرثیہ :آوازۂ حق۔بند ۴۹)