101۔ قبیلے کی اہمیت
اَكْرِمْ عَشِيْرَتَكَ فَاِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِيْ بِهٖ تَطِيْرُ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
اپنے قبیلے کا احترام کرو کیونکہ وہ تمھارے پر و بال ہیں جن سے تم پرواز کرتے ہو۔
انسان جتنا قوی اور صاحب قدرت ہو اسے دوسرے انسانوں کی ضرورت رہتی ہے۔ جو لوگ اس کے زیادہ قریب ہوں گے وہ زیادہ مدد کر سکیں گے۔ انسان کا خاندان اس کے سب سے قریب ہوتا ہے، یہ خونی رشتے کسی غرض کی وجہ سے نہیں بنتے بلکہ پیدائش سے بنتے ہیں البتہ ان رشتوں کی حفاظت ضروری ہے اس لیے جو شخص کسی کمال تک پہنچنا چاہتا ہے اسے سب سے پہلے اپنے اردگرد والوں اور رشتہ داروں کی اس انداز میں تربیت کرنا چاہیے کہ وہ اس کے مشن کے مددگار بن سکیں اور ان کی مدد سے معاشرے کے دوسرے افراد کی اصلاح کی جا سکے۔
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام اس مقام پر خاندان کے اس اثر کو واضح فرماتے ہیں اور وصیت کرتے ہیں
”اپنے قوم و قبیلہ کا احترام کرو کیونکہ یہ تمھارے بال و پر ہیں جن کے تم ذریعے پرواز کرتے ہو اور ایسی بنیادیں ہیں جن کا تم سہارا لیتے ہو اور تمھارے وہ دست و بازو ہیں جن سے تم دشمن پر حملہ کرتے ہو۔“
یعنی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے پروں کی طرح رشتہ داروں کا ساتھ چاہیے۔ خود کو مضبوط رکھنے، اپنے دفاع یا دوسروں سے اپنے حقوق لینے کا ایک مضبوط سہارا یہی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ البتہ یہ رشتے دوسروں پر ظلم کرنے میں مددگار نہیں ہونے چاہیں بلکہ دوسروں کو ظلم سے روکنے کا سبب ہونے چاہیں۔