102۔ بیٹے کا مقام
وَجَدْتُکَ بَعْضِي، بَلْ وَجَدْتُکَ کُلِّي۔ (نہج البلاغہ مکتوب ۳۱)
تم میرا ہی ایک حصہ ہو بلکہ جو میں ہوں وہی تم ہو۔
انسان کسی سے تربیت پاتا ہے اور پھر کسی کی تربیت اس کے ذمہ ہوتی ہے۔ تربیت کی سب سے زیادہ ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے اور پھر اساتذہ کو یہ فریضہ نبھانا ہوتا ہے۔ والدین سب سے پہلے مربی ہوتے ہیں۔
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے اس تفصیلی مکتوب میں جہاں بیٹے کو درجنوں نصیحتیں کی ہیں۔ وہاں نصیحتیں کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔ اس فرمان میں امام علیہ السلام اپنے بیٹے کو فرماتے ہیں کہ تم میرا ٹکرا ہو بلکہ جو میں ہوں وہی تم ہو۔ تم میرا ہی ٹکڑا ہو کا جملہ یا ’’بیٹا باپ کے دل کا ٹکڑا ہوتا ہے‘‘ اکثر یہ جملہ استعمال ہوتا ہے۔ آپؑ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا اور فوراً اس کی تاکید کے لیے دوسرا جملہ کہا کہ جو میں ہوں وہی تم ہو۔
اس فرمان سے تربیت کا یہ طریقہ واضح ہوتا ہے کہ اولاد کی تربیت یا جس کی تربیت کرنی ہو سختی سے نہیں پیار سے ہوتی ہے۔ پیار سے ہی آپ بات منوا سکتے ہیں اور اس پیار و محبت کا اظہار بھی ضروری ہے۔ اس اظہار محبت میں خلوص ہونا چاہیے اور بہتر سے بہتر انداز میں ہونا چاہیے۔ باپ یقیناً اولاد سے محبت کرتا ہے مگر اظہار کم کرتا ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جو طریقہ کار یہاں بتایا اس کے مطابق اظہار ضروری ہے۔ اس پورے وصیت نامہ میں آپ نے تیرہ بار اے میرے پیارے بیٹے کہ کر خطاب کیا۔ پس تربیت کو فریضہ جاننا چاہیے، تربیت محبت سے کی جانی چاہیے اور محبت کے لیے خوبصورت الفاظ کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ محبت الفاظ سے بھی ظاہر ہو اور کردار سے بھی ہو اور یہ محبت خلوص نیت اور دل کی گہرائی سے ہو۔