103۔ جوانی
اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ کَالْاَرْضِ الْخَالِيَةِ مَا اُلْقِيَ فِيْهَا مِنْ شَيءٍ قَبِلَتْهُ۔ (نہج البلاغہ مکتوب ۳۱)
کم سن کا دل اس خالی زمین کے مانند ہوتا ہے جس میں جو بیج ڈالا جاتا ہے اسے قبول کر لیتی ہے۔
ہر شے کے لیے موسم بہار ہوتا ہے جو اس کے جمال کے اظہار کا موسم ہوتا ہے۔ انسان کی جوانی اس کی قوت و قدرت کی بہار کا زمانہ ہے۔ سمجھ دار باغبان بہار آنے پر پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال شروع نہیں کرتا بلکہ بہت پہلے اس کے لیے زمین ہموار کرتا ہے، پانی اور کھاد مہیا کرتا ہے، موسم پر بیج تلاش کرتا ہے پھر اس کی دیکھ بھال کرتا ہے، تو بہار میں وہ پودے پھول دیتے ہیں۔ اگر کہیں سستی و کوتاہی ہو گئی تو بہار میں وہ پودا مرجھایا ہوا ہو گا اور پھولوں سے خالی ہوگا۔
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے انسان کی تربیت کا موسم اس کی کم سنی یا نوجوانی کو قرار دیا ہے۔ اس نوجوانی کے زمانے کو خالی زمین سے تشبیہ دی کہ اسے تیار کر کے اس میں مناسب بیج تلاش کر کے کاشت کیا جائے۔ یوں وقت پر اس زمین میں قیمتی بیج کاشت ہو گیا تو جوانی میں انسانیت کے کمالات کا اس سے اظہار ہو گا اور اگر مربی نے اس کم سنی میں کوتاہی کی، یا مناسب بیج انتخاب نہ کیا تو جلد وہ زمین یا تو اتنی سخت ہو جائے گی کہ پھر کسی بیج کو قبول ہی نہیں کرے گی اور قابل کاشت ہی نہیں رہے گی یا ممکن ہے کہیں اِدھر اُدھر سے ہوا سے اڑ کر آنے والے بیج اُگ آئیں تو یہ خود رو پودے پھول دار ہوں گے یا کانٹے دار اس کا پھر کوئی پتا نہیں چلتا۔
اس فرمان سے امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نوجوانی میں تربیت کو خوبصورت مثال سے لازمی قرار دے رہے ہیں۔ والدین کی طرح مربی کو اس موسم میں متوجہ رہنا چاہیے اور جو قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں انھیں اپنے نوجوانوں کی تربیت کے وقت بیدار رہنا چاہیے۔ علامہ اقبال مربّی کی حوصلہ افزائی کے لیے فرماتے ہیں:
نہیں ہے نا امید اقبال کشتِ ویراں سے