108۔ بے حسی
وَحَسْبُكَ دَاءً اَنْ تَبِيْتَ بِبِطْنَةٍ وَ حَوْلَکَ اَکْبَادٌ تَحِنُّ اِلَی الْقِدِّ۔ (نہج البلاغہ مکتوب ۴۵)
تمھاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمھارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں۔
انسان کی عظمت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو کم از کم اپنے جتنی عزت دے۔ یہ الفاظ جو یہاں بیان کئے گئے اس معلم انسانیت کے ہیں جو مسندِ حکومت پر بیٹھا ہے اور دوسرے انسانوں کے غموں میں شریک ہونے کا درس بصرہ کے گورنر کو دے رہا ہے۔ یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جو دوسروں کا درد سن کر اپنے اندر درد محسوس کرتا ہے۔ اس خط کا ایک ایک جملہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں دکھی انسان کا کیا مقام ہے۔ انسان خود کھا لے اور بھوکوں کو بھلا دے، اسے آپ علیہ السلام بیماری قرار دیتے ہیں۔ ہاں یہ انسانیت کی بیماری کی نشانی ہے۔ اگر انسان کا باطن صحت مند ہو تو وہ دوسرے انسان کو خود پر ترجیح دیتے ہوئے نظر آئے گا۔
انسانیت کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کسی کے درد کو اپنا درد محسوس کریں۔ اگر ظاہری طور پر کچھ بھی نہ کر سکیں تو ایک آہ آپ کے دل کو بھی تسکین دے گی اور جس کے لیے آہ بھری ہے اسے بھی سکون ہو گا کہ کوئی تو میرا ہمدرد ہے۔ اس خط میں امامؑ نے اپنی خشک روٹیوں اور پرانی چادروں کا ذکر کیا جو یہ واضح کرتا ہے کہ انسان لباس و خوراک سے بڑا نہیں بنتا بلکہ انسانیت کے احترام اور انصاف سے اسے عزت ملتی ہے۔