109۔ مقصد زندگی
فَمَا خُلِقْتُ لِيَشْغَلَنِيْ اَكْلُ الطَّيِّبَاتِ كَالْبَهِيْمَةِ ۔ (نہج البلاغہ مکتوب ۴۵)
میں اس لیے تو پیدا نہیں ہوا ہوں کہ جانوروں کی طرح اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں۔
یہ جملہ غفلت میں گھرے ہوئے انسان کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے ہے۔ انسانوں کی بہت بڑی تعداد اپنی زندگی کا مقصد اچھے کھانے اور دنیاوی سکون کو سمجھتی ہے اور اپنی دولت کا بڑا حصہ اسی کھانے پینے پر خرچ کر دیتی ہے۔ جن کے پاس دولت کی فراوانی نہیں ان کی سوچوں میں بھی وہی کھانا پینا ہے۔
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے ایسی سوچ والوں کو حیوان سے تشبیہ دی ہے اور واضح فرمایا کہ انسان اس لیے تو پیدا نہیں ہوا کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہے۔ یا بندھے ہوئے چوپائے کی طرح ہو جائے کہ اس کی ساری فکر چارے میں لگی رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح ہو جس کا کام ہر طرف منہ مارنا ہوتا ہے۔
آپؑ ان فرامین میں انسان اور حیوان میں فرق واضح کر کے انسان کے حقیقی مقام کو بیان کر رہے ہیں کہ انسان کا مقصود کھانا ہی نہیں بلکہ کھلانا بھی ہے اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنا ہے۔