اہمیتِ خاندان
اہمیتِ خاندان
وَ أَكْرِمْ عَشِيرَتَكَ فَإِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِي بِهِ تَطِيرُ وَ أَصْلُكَ الَّذِي إِلَيْهِ تَصِيرُ وَ يَدُكَ الَّتِي بِهَا تَصُولُ . (وصیت ۳۱)
ترجمہ: اپنے قوم قبیلے کا احترام کرو کیونکہ وہ تمہارے ایسے پرو بال ہیں کہ جن سے تم پرواز کر سکتے اور ایسی بنیادیں ہیں جن کا تم سہارا لیتے ہو اور تمہارے وہ دست و بازو ہیں جن سے حملہ کرتے ہو ۔
امامؑ اپنے مواعظ میں جن چیزوں کی طرف ترغیب دلاتے ہیں ان میں سے ایک خاندان اور رشتہ داروں سے تعلق ہے۔اس فرمان میں امامؑ نے رشتہ داروں کو تین چیزوں سے تشبیہ دی۔وہ تیرے پر ہیں،بنیادیں ہیں،دست وبازو ہیں۔وجود انسان کے لئے جتنی یہ چیزیں مہم ہیں اس زندگی میں خاندان و رشتہ دار بھی اتنے مہم ہیں۔
ایک اور مقام پر امامؑ خاندان کی اہمیت کے لئے فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَا يَسْتَغْنِي الرَّجُلُ وَ إِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عِتْرَتِهِ وَ دِفَاعِهِمْ عَنْهُ بِأَيْدِيهِمْ وَ أَلْسِنَتِهِمْ وَ هُمْ أَعْظَمُ النَّاسِ حَيْطَةً مِنْ وَرَائِهِ وَ أَلَمُّهُمْ لِشَعَثِهِ وَ أَعْطَفُهُمْ عَلَيْهِ عِنْدَ نَازِلَةٍ إِذَا نَزَلَتْ بِهِ وَ لِسَانُ الصِّدْقِ يَجْعَلُهُ اللَّهُ لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الْمَالِ يَرِثُهُ غَيْرُهُ .
و منها : أَلَا لَا يَعْدِلَنَّ أَحَدُكُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ يَرَى بِهَا الْخَصَاصَةَ أَنْ يَسُدَّهَا بِالَّذِي لَا يَزِيدُهُ إِنْ أَمْسَكَهُ وَ لَا يَنْقُصُهُ إِنْ أَهْلَكَهُ وَ مَنْ يَقْبِضْ يَدَهُ عَنْ عَشِيرَتِهِ فَإِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْهُ
عَنْهُمْ يَدٌ وَاحِدَةٌ وَ تُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْهُ أَيْدٍ كَثِيرَةٌ وَ مَنْ تَلِنْ حَاشِيَتُهُ يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ . (خطبہ:۲۳)
ترجمہ: اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اوراس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے ۔
قرآن مجید نے صلۃ الرحم کی اہمیت بار بار بیان فرمائی اور یہاں جناب امیر المؤمنین ؑ نے مثالوں کے ذریعہ اسے واضح کیا۔ اس محبت کی بقا کا نسخہ امامؑ نے ایک جملہ میں ارشاد فرما دیا’’جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے‘‘۔
دوسروں کی سختیوں اور زیادتیوں کو بھلا کر خود احسان و اکرام کے پودے کاشت کرتا رہے تو خود بھی ان کی خوشبو سے یقیناً معطر ہو گا۔