111۔ سختی اور نرمی
وَ اخْلِطِ الشِّدَّةَ بِضِغْثٍ مِّنَ اللِّيْنِ۔ (نہج البلاغہ مکتوب ۴۶)
سختی کے ساتھ کچھ نرمی کی آمیزش کیے رہو۔
انسان کو معاشرے میں برتاؤ کے لیے جو اصول اپنانے چاہئیں ان کی کچھ وضاحت آپ نے یہاں کی ہے۔ اگرچہ یہ فرمان گورنروں، قاضیوں اور عہدہ داروں کے لیے ہے مگر اسے عمومی طور پر ان تمام افراد کو اپنانا چاہیے جو کسی کی تربیت اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔ ماں باپ اپنی اولاد کے لیے اس اصول کو اپنا کر بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ جہاں سختی ضروری ہو وہاں سختی کرنی چاہیے اور جہاں نرمی سے کام چل سکتا ہے وہاں نرمی ہی بہترین برتاؤ ہوگا۔
یہ اللہ سبحانہ کی روش ہے کہ اس نے اپنے نمائندوں کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا۔ یعنی بشارت دے کر ان کو خوش بھی کیا جائے اور خلاف ورزی پر ڈرایا بھی جائے۔ البتہ نرمی و عزت و احترام کا اثر بہتر اور مفید ہوتا ہے اور زیادہ افراد نرمی سے متأثر ہوتے ہیں۔
امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے کئی بار اس اصول کو بیان فرمایا ہے کہ کسی کام میں بھی درمیانی روش اپنانی چاہیے۔ اکثر لوگ سزا اور سختی کے ذریعہ سے کام لینا چاہتے ہیں مگر اس ذریعہ سے وقتی طور پر تو کام لیا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ یہ روش مفید نہیں رہتی۔ ظاہری طور پر تو سزا سے کام لیا جا سکتا ہے مگر دلی طور پر اس کام میں دلچسپی نہیں ہو گی۔