112۔ میل ملاپ
وَعَلَيْكُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّدَابُرَ وَالتَّقَاطُعَ۔ (نہج البلاغہ مکتوب ۴۷)
تم پر لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور دوسروں کی اعانت کرنا، اور خبردار ایک دوسرے سے منہ موڑنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا۔
زندگی کے آخری لمحات میں جو کہا جاتا ہے اس کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کے یہ جملے زخمی ہونے کے بعد وصیت کے طور پر منقول ہیں۔ اس حالت میں بھی آپ انسانی تعلقات کو مضبوط کرنے کی تاکید فرما رہے ہیں۔ آپس میں میل ملاپ رکھنا یعنی اپنے تعلقات کو جوڑے رکھنا۔ یہاں بیٹوں کے لیے اور اپنے خاندان کے لیے بھی حکم ہے اور عمومی بھی۔ تعلقات میں ایک خاص پہلو کو بھی ذکر کیا کہ ان تعلقات میں جود و سخا سے کام لینا اور ضرورت مند پر مال خرچ کر کے اس کی مدد کرنا اور یوں تعلقات مزید مضبوط کرتے رہنا۔ روابط قائم رکھنے اور جوڑنے کے ساتھ تاکید کے طور پر ایک دوسرے سے منہ موڑنے اور تعلقات منقطع کرنے سے بھی منع فرمایا۔ گویا اللہ والے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک انسانوں کو جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
یہ تعلقات گھر سے شروع ہوتے ہیں اور پوری انسانیت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ باکمال انسان وہی ہوتا ہے جو ان اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنائے۔ افراد سے اقوام تک کے لیے یہ قوانین ہیں۔ افراد ہی سے قومیں بنتی ہیں اور قوموں ہی سے افراد کی عزت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے اس تعلق کے متعلق فرمایا:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں