114۔ نظم و ضبط
اُوْصِیْکُمَا وَ جَمِیْعَ وَلَدِیْ وَ أَهْلِیْ وَ مَنْ بَلَغَهُ کِتَابِیْ بِتَقْوَى اللهِ وَ نَظْمِ اَمْرِکُمْ۔(نہج البلاغہ مکتوب ۴۷)
میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور اپنے معاملات کو منظم رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔
زندگی کسی ایک عمل کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل نظام ہے۔ زندگی میں ذات، خاندان، مالیات، صحت، مذہب، عبادات اور درجنوں دیگر معاملات شامل ہیں۔ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں زخمی حالت میں جو اہم وصیتیں کیں ان میں فرماتے ہیں:
’’میں تم دونوں بیٹوں کو، اپنی تمام اولاد کو، اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میری یہ تحریر پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے معاملات کو منظم و درست رکھنا‘‘
آپؑ نے زندگی بھر جس نصیحت پر سب سے زیادہ زور دیا وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی زندگی دینے والے کی امانت سمجھ کر اسے اس کی خوشی و مرضی کے مطابق گزارنا اور اس کی مخالفت و ناراضی سے ڈرنا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’زندگی کے معاملات کو درست و منظم رکھیں‘‘۔
زندگی کے معاملات کو منظم رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے متعدد معاملات ہیں ان میں توازن رکھیں۔ زندگی کا مقصد سمجھیں اور سوچیں ہم کیوں لائے گئے ہیں اور اسی مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ سازی کریں۔ کون سا کام پہلے کرنا ہے کونسا بعد میں کرنا ہے وقت معین کریں۔ بہت سے لوگ زندگی کے معاملات کو تب انجام دیتے ہیں جب کام سر پر آن پڑے۔ یہ زندگی کے غیر منظم ہونے کی نشانی ہے۔
وقت مقرر کریں کب کرنا ہے اور کتنی دیر کرنا ہے۔ اس کے لیے مقدمہ سازی کریں۔ اس کام کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کا جائزہ لیں۔ مالیات کو دیکھیں، افراد جن کی مدد درکار ہے ان سے رابطہ کریں۔ یہ سب زندگی کو منظم کرنے کی چیزیں ہیں۔ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ اس دنیا میں آپ ہی کی زندگی نہیں ہے دوسرے لوگ بھی رہتے ہیں اور ان کی بھی زندگیاں ہیں۔ یوں آپ خود پرستی میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے۔
جس طرح فرد کی زندگی میں نظم و ضبط کی ضرورت ہے اسی طرح قوم اور معاشرے کی زندگی میں بھی نظم ضروری ہے۔ غیر منظم زندگی سے جیسے افراد ناکام ہوتے ہیں اسی طرح اقوام بھی ناکام ہوتی ہے۔ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کا آخری لمحات میں تفصیل سے ایسی وصیت کرنا یہ بتلاتا ہے کہ ایک حقیقی راہنما کو اپنے بعد بھی قوم، خاندان اور اولاد کی زندگیوں کو سنوارنے کا خیال ہوتا ہے اور یہی چیز علی علیہ السلام کی عظمت کی نشانی ہے۔
گویا اپنی اس تحریر کے ذریعے آپ نے قیامت تک کامیابی کے طلب گاروں کی راہنمائی کا ذریعہ مہیا کر دیا ہے۔ یہ تحریر نہج البلاغہ کا حصہ ہے گویا نہج البلاغہ سے راہنمائی اور ان تحریروں سے زندگی کو سنوارنا علیؑ کی خواہش تھی جو اب بھی باقی ہے۔