فَلْيَكُنْ اَحَبُّ الذَّخَائِرِ اِلَيْكَ ذَخِيْرَةُ الْعَمَلِ الصَّالِحِ۔ (خط ۵۳)
ہر ذخیرہ سے زیادہ پسند تمہیں نیک اعمال کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔
امیرالمؤمنینؑ اپنی حکومت کے ایک بڑے صوبے کے گورنر اور اپنے ایک نہایت قریبی ساتھی کو قیمتی سرمایہ کا پتا بتا رہے ہیں۔ حکومتیں مال و دولت کو بڑا سرمایہ اور فوج و لشکر کو حکومت کی قوت کا سبب قرار دیتے ہیں مگر امیرالمؤمنینؑ کی نگاہ میں مالک اشتر جیسے گورنر کے لیے محبوب ترین ذخیرہ و سرمایہ عمل خیر ہے۔ یہ دیر پا سرمایہ ہے جوانسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے اور قرآنی اصول زندگی کے مطابق اگر گھاٹے سے بچانے والی کوئی چیز ہے تو ان میں سے ایک یہی عمل صالح ہے۔ عمل صالح یعنی انجام دینے والا اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق جو کام بہتر سے بہتر انجام دے سکتا ہے وہ انجام دے اور جتنا کوئی عمل دوسروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے اتنا ہی وہ زیادہ عمل خیر حساب ہوگا۔
کسی دانشور نے خوب فرمایا کہ اگر اسلام کا مختصر ترین الفاظ میں تعارف کرایا جائے تو وہ’’عمل صالح‘‘ ہے۔ان نیک اعمال میں فقط نماز اور روزہ جیسی عبادات ہی نہیں آتیں بلکہ ہر وہ شائستہ کام جو انسان کے اپنے لیے اور دوسروں کی بہتری کے لیے ہو وہ عمل صالح کہلائے گا۔ یہ چھوٹا سا عمل ہو سکتا ہے جیسے راستے سے پتھر ہٹا دینا یا کسی بھولے ہوئے کو راہ بتا دینا۔ خاندان کے لیے کمائی کرنا اور بھائی چارہ بھی عمل صالح کا واضح مصداق ہے۔