فَاَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلِ الَّذِيْ تُحِبُّ وَ تَرْضٰى اَنْ يُعْطِيَكَ اللَّهُ مِنْ عَفْوِهِ وَ صَفْحِهِ۔ (خط ۵۳)
تم دوسروں سے اسی طرح عفو و درگزر سے کام لینا جس طرح اللہ سے اپنے لیے عفو و درگزر کو پسند کرتے ہو۔
احترام انسانیت کے بہترین اصول میں سے ایک یہاں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے تو امام مالک اشتر کو فرماتے ہیں کہ تم جن کے لیے حکمران بنا کر بھیجے جا رہے ہو یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا تمہاری جیسی مخلوق خدا۔ پھر فرمایا ان سے جان بوجھ کر یا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی اس لیے ان سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو تو انہیں یوں معاف کر دینا اور ان کی غلطی کو یوں نادیدہ قرار دینا جیسے تم سے غلطی ہو جائے تو چاہتے ہو کہ اللہ معاف کر دے یا جس آدمی سے تم نے زیادتی کی ہے وہ معاف کر دے اور درگزر کرے۔ انسان اگر خود وہی کام دوسروں کے لیے انجام دے جس کی دوسروں سے توقع رکھتا ہے تو زندگی کی بہت سی مشکلیں اور پریشانیاں دور ہو جائیں۔
اس فرمان میں ایک حکمران کے لیے بھی یہ واضح فرمادیا کہ آپ اگر کسی پر حاکم ہیں تو آپ پر بھی اللہ حاکم ہے۔ اگر حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ سوچ جا گزیں ہو جائے تو ان کی زندگیوں سے خود سری کا پہلو نکل جائے گا اور انسان خود کو خدا کے سامنے جواب دہ جانے گا۔ اس صورت میں خدا کے بندوں سے ویسا برتاؤ کرنے کی کوشش کرے گا جیسے برتاؤ کی توقع خدا سے رکھتا ہے۔