مَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اللهِ كَانَ اللهُ خَصْمَهٗ دُوْنَ عِبَادِهٖ۔ (خط ۵۳)
جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو بندوں کے بجائے اللہ اس کاحریف و دشمن بن جاتا ہے۔
انسان کی زندگی کے زینت اعمال میں سے عدل و انصاف ہے اور انصاف کے متضاد ظلم ہے۔ انصاف یعنی اجتماعی حقوق میں اپنے اور دوسروں کے درمیان برابری کو مدنظر رکھنا۔ روایات میں انصاف کی یہ تعریف بھی ذکر کی گئی ہے کہ جو اپنے لیے چاہتے ہو وہ دوسروں کے لیے بھی چاہو اور جو اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے بھی نا پسند کرو۔ اس حصے میں امیرالمؤمنینؑ نے بطور گورنر مالک اشتر کو انصاف کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اللہ کے بندوں پر ظلم و زیادتی کرتا ہے تو گویا اس نے اللہ سے دشمنی کی اور اس کا حریف اللہ ہوگا۔ اب جس کا حریف و مد مقابل اللہ ہے اس سے بدتر کون ہو سکتا ہے۔ اس فرمان سے انسان کی عظمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے ہاں انسان کا کیا مقام ہے۔ یہاں کسی نیک و پارسا انسان کا نہیں بلکہ عام انسان کا تذکرہ ہے۔