تسبیح و تقدیس کے سلسلہ میں حضرتؑ کی دعا
۱۔ { وَ كَانَ مِنْ تَسْبِیْحِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامِ}
تسبیح و تقدیس کے سلسلہ میں حضرتؑ کی ایک دُعا:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَ حَنَانَیْكَ، سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَعَالَیْتَ، سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَالْعِزُّ اِزْارُكَ، سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَ الْعَظَمَةُ رِدَآئُكَ، سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَالْكِبْرِیَآءُ سُلْطَانُكَ، سُبْحَانَكَ مِنْ عَظِیْمٍ مَاۤ اَعْظَمَكَ.
اے میرے معبود! میں تیری تسبیح کرتا ہوں تو مجھ پر کرم بالائے کرم فرما،بارِ الٰہا! میں تیری تسبیح کرتا ہوں اور تو بلند و برتر ہے، خدایا! میں تیری تسبیح کرتا ہوں اور عزت تیرا ہی جامہ ہے، بارِ الٰہا! میں تیری تسبیح کرتا ہوں اور عظمت تیری ہی ردا ہے، اے پروردگار !میں تیری تسبیح کرتا ہوں اور کبریائی تیری دلیل و حجت ہے، پاک ہے تو اے عظیم و برتر تو کتنا عظمت والا ہے۔
سُبْحَانَكَ سُبِّحْتَ فِی الْمَلَاِ الْاَعْلٰى، تَسْمَعُ وَ تَرٰى مَا تَحْتَ الثَّرٰى.
پاک ہے تو! اے وہ کہ ملاء اعلیٰ کے رہنے والوں میں تیری تسبیح کی گئی ہے، جو کچھ تہِ خاک ہے تو اُسے سنتا اور دیکھتا ہے۔
سُبْحَانَكَ اَنْتَ شَاهِدُ كُلِّ نَجْوٰى، سُبْحَانَكَ مَوْضِعُ كُلِّ شَكْوٰى.
پاک ہے تیری ذات! تو ہر راز دارانہ گفتگو پر مطلع ہے، پاک ہے تو! اے وہ جو ہر رنج و شکوہ کے پیش کرنے کی جگہ ہے۔
سُبْحَانَكَ حاضِرُ كُلِّ مَلاٍ، سُبْحَانَكَ عَظِیْمُ الرَّجآءِ، سُبْحَانَكَ تَرٰى مَا فِیْ قَعْرِ الْمَآءِ، سُبْحَانَكَ تَسْمَعُ اَنْفَاسَ الْحِیْتَانِ فِیْ قُعُوْرِ الْبِحَارِ.
پاک ہے تو! اے وہ جو ہر اجتماع میں موجود ہے، پاک ہے تو اے وہ جس سے بڑی سے بڑی امیدیں باندھی جاتی ہیں، پاک ہے تو! جو کچھ پانی کی گہرائی میں ہے اُسے تو دیکھتا ہے، پاک ہے تیری ذات! تو سمندروں کی گہرائیوں میں مچھلیوں کے سانس لینے کی آواز سنتا ہے۔
سُبْحَانَكَ تَعْلَمُ وَزْنَ السَّمٰوٰتِ، سُبْحَانَكَ تَعْلَمُ وَزْنَ الْاَرَضِیْنَ، سُبْحَانَكَ تَعْلَمُ وَزْنَ الشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ، سُبْحَانَكَ تَعْلَمُ وَزْنَ الظُّلْمَةِ وَ النُّوْرِ، سُبْحَانَكَ تَعْلَمُ وَزْنَ الْفَیْءِ وَ الْهَوَآءِ، سُبْحَانَكَ تَعْلَمُ وَزْنَ الرِّیْحِ كَمْ هِیَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ.
پاک ہے تیری ذات! تو آسمانوں کا وزن جانتا ہے، پاک ہے تیری ذات! تو زمینوں کے وزن سے باخبر ہے، پاک ہے تیری ذات! تو سورج اور چاند کے وزن سے واقف ہے، پاک ہے تیری ذات! تو تاریکی اور روشنی کے وزن سے آگاہ ہے، پاک ہے تیری ذات تو سایہ اور ہوا کا وزن جانتا ہے، پاک ہے تیری ذات! تو ہوا کے(ہر جھونکے کے) وزن سے آگاہ ہے کہ وہ وزن میں کتنے ذرّوں کے برابر ہے۔
سُبْحَانَكَ قُدُّوْسٌ قُدُّوْسٌ قُدُّوْسٌ، سُبْحَانَكَ عَجَبًا مَّنْ عَرَفَكَ كَیْفَ لَا یَخَافُكَ؟! سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَ بِحَمْدِكَ، سُبْحَانَكَ اللهُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ.
پاک ہے تیری ذات! تو (تصور و خیال و وہم میں آنے سے) پاک، منزہ اور بری ہے، میں تیری تسبیح کرتا ہوں، تعجب ہے کہ جس نے تجھے پہچانا وہ کیونکر تجھ سے خوف نہیں کھاتا، اے اللہ! میں حمد و ثنا کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، پاک ہے وہ پروردگار جو علو و عظمت والا ہے۔
–٭٭٭٭–
یہ دُعا اللہ تعالیٰ کی تحمید و تسبیح کے سلسلہ میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و رفعت، علو و اجلال اور تنزیہ و تقدیس کے پہلو بہ پہلو اس کے علم کی وسعت کا ایسے سیدھے سادے اور دل نشین انداز سے تذکرہ کیا ہے کہ دل و دماغ پر اس کی علمی وسعت و ہمہ گیری کا نقش ثبت ہو جاتا ہے۔ اور اس علمی وسعت کو ذہنوں میں راسخ کرنے کیلئے ان چیزوں کو بیان فرمایا ہے جو عام علم و مشاہدہ اور حس و ادراک کے دائرہ سے باہر ہیں۔ جیسے نور، ظلمت، سایہ اور ہوا کا وزن، سمندر کی گہرائیوں میں مچھلیوں کے سانس لینے کی آواز، زمین کے اندر کی مخفی کائنات اور پانی کی تہ در تہ چادروں کے نیچے چھپے ہوئے عجائبات۔ مقصد یہ ہے کہ جب وہ زمین کی اندرونی تہوں اور سمندر کے اندر کی چیزوں کو دیکھتا، مچھلیوں کے سانس لینے کی آواز سنتا اور نور و ہوا ایسے لطیف اجسام کے وزن و مقدار کو جانتا ہے تو پھر ان سے زیادہ حواس و مشاعر سے مخفی رہنے والی چیزیں کیا ہوں گی جن کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ اس کی نگاہ سے اوجھل رہ سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو زمین کے اندر اور سمندر کی اتھاہ گہرائی سے واقف ہے وہ اس کی سطح سے بھی ضرور آگاہ ہو گا اور جو سمندر کی تہہ میں مچھلیوں کے سانس لینے کی آواز سنتا ہے وہ گھونسلوں میں پرندوں کے چہچہے، کھوؤں میں حیوانوں کی آوازیں اور زمین پر انسانوں کی صدائیں بھی سنتا ہو گا اور جو اندھیرے اور اجالے اور سایہ و ہوا کا وزن جانتا ہے وہ دوسری چیزوں کے وزن و مقدار سے بھی پوری طرح باخبر ہو گا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿اِنَّ اللہَ لَا يَخْفٰى عَلَيْہِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَآءِ۵ۭ﴾
زمین و آسمان کی کوئی چیز (وہ زمین و آسمان کے اندر ہو یا ان کا جز ہو) اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ [۱]
حضرتؑ کی دُعا کے اس حصہ پر جو علم الٰہی سے متعلق ہے نظر کرنے کے بعد کم از کم اتنا تو اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ انسان نے تحقیق و جستجو کے بعد جن رازہائے سربستہ کا سراغ لگایا ہے، صدیوں پہلے ان رموز و اسرار کی نقاب کشائی کی اسے دعوت دی جا چکی تھی اور یہ اس کی تساہل پسندی کا قصور ہے کہ وہ اتنے عرصہ تک تحقیق و تجسس کے میدان میں گامزن نہ ہوا اور اس دعوتِ فکر و عمل کے باوجود صد ہا برس چپ سادھے رہا۔ اور علی الخصوص وہ افراد زیادہ مورد الزام ہیں جن کے پاس یہ سرمایۂ علمی موجود تھا اور وہ اس سے بے خبر رہے اور عملا کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ ورنہ جو حقائق آج سامنے آ رہے ہیں وہ صدیوں پہلے بے نقاب ہو چکے ہوتے۔ چنانچہ آئمہ اہل بیت علیہ السلام نے تیرہ سو برس بیشتر زمین و آسمان، شمس و قمر، نور و ظلمت اور سایہ و ہوا کے وزن اور زمین کی اندرونی تہوں، سمندر کی گہرائیوں اور وہاں کی آباد کائنات کا ذِکر کر کے خلائے بسیط اور کراتِ ارضی و سماوی میں فکر و تجسس کی راہ کھول دی تھی، تا کہ انسان زمین کے ورق الٹے، سمندر کی موجوں سے کھیلے اور فطرت کی بو قلمونیوں سے دامن نظر بھرے اور روشنی و ہوا اور اجرام فلکیہ کا وزن معلوم کرنے کیلئے فضا کو تسخیر کرے، ذرّوں کو چیرے اور ان میں ایک جہان نو کا تماشا دیکھے اور قدرت کی قلمرو مملکت کی وسعت و پہنائی کا اندازہ لگائے کہ یہ عالمی فضاکتنی بڑی کائنات کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے کہ ہر ذرّہ اپنے مقام پر ایک دنیا ہے جس میں آفتاب و ماہتاب، ستارے، سیارے ہمارے اس نظامِ شمسی کی طرح گھوم پھر رہے ہیں۔
دل هر ذرّه را که بشکافی
آفتابیش در میان بینی
حضرتؑ نے پہلے زمین کے اندرونی حصہ کا ذِکر کیا ہے۔ زمین کا اندرونی حصہ بھی اس کے بالائی حصہ کی طرح مختلف اور متنوع چیزوں سے آراستہ ہے اور ماہرین طبقات الارض نے سطح ارض سے ہزاروں فٹ کی گہرائیوں اور پر اسرار غاروں میں اتر کر زمین کی تہوں پر قدرت کے کندہ کئے ہوئے نقوش پڑھے تو انہیں زمین کے بالائی خطوط سے کم متنوع اور کم دلفریب نہیں پایا۔ چنانچہ جس طرح اس کی بالائی سطحوں پر کہیں ریگ زار ہیں اور کہیں سر بلند پہاڑ، کہیں دریا ہیں اور کہیں سبزہ زار، کسی حصہ پر چلچلاتی گرمی پڑ رہی ہے اور کسی حصہ پر کڑکڑاتی سردی، کہیں مینہ کے جھالے برس رہے ہیں اور کہیں لُو کے جھونکے مچل رہے ہیں، اسی طرح اس کی اندرونی تہوں میں بھی کہیں بہتے ہوئے دریا ہیں اور کہیں رستے ہوئے چشمے۔ کہیں سونے اور چاندی کے ذرات بِکھرے ہوئے ہیں اور کہیں ہیرا و زمرد ایسے معدنیات نشو و نما پا رہے ہیں۔ کہیں کہر ہے اور کہیں خوش نما دھنک۔ کہیں سردی ہے اور کہیں گرمی۔ کہیں دریائے سارگیز اور ہڈیارک بہہ رہے ہیں اور کہیں آتشیں جھیلیں اور دوسرے سیال عناصر رواں دواں ہیں۔ ان سیال عناصر میں زمین کا وہ آتشین مادہ بھی ہے کہ جو اس کے رگ و ریشہ میں تیزی سے دوڑتا ہے تو زمین زلزلوں کی لپیٹ میں آ جاتی ہے اور کبھی یہ کھولتا ہوا مادہ زمین کو چیرتا اور چٹانوں کو توڑتا ہوا لاوا کی صورت میں ابل پڑتا ہے۔ اس سے زمین کی اندرونی حرارت و تپش کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس کے اوپر کی تہیں سرد ہیں مگر جوں جوں اس کے اندر اترا جائے اس کی حرارت بڑھتی جاتی ہے اور 7200 فٹ کی گہرائی میں پانی کھولنے لگتا ہے۔ بلکہ اتنی گہرائی میں پہنچ کر بھاپ کے زور سے زمین کی سطح کو چیر دیتا اور گرم چشمہ کی صورت میں ابلنے لگتا ہے۔ اور جنوبی افریقہ میں بعض کانیں 7640 فٹ تک گہری کھودی جا چکی ہیں، جہاں گرمی کا یہ عالم ہے کہ اس سے بچاؤ کے خصوصی انتظامات کے بغیر وہاں ٹھہرا نہیں جا سکتا اور اس کے مرکز میں تو پگھلے ہوئے لوہے کی بھٹی شعلہ فگن ہے جس کا درجہ حرارت تقریبا سطح آفتاب کے درجہ حرارت کے برابر ہے۔
پھر سمندر اور اس کے اندر کی دنیا کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرتؑ سمندر کی تہ میں بھیانک خاموشی کا نظریہ نہ رکھتے تھے اور نہ ان توہمات میں مبتلا تھے جو اس دور میں عوام کے ذہنوں پر چھائے ہوئے تھے اور عقائد کی صورت میں طبائع انسانی پر مسلط تھے۔ بلکہ وہاں کے متعلق ایک جیتی جاگتی پر رونق و آباد دنیا کا تصور رکھتے تھے۔ چنانچہ اب وہاں کی تھوڑی بہت دنیا مشاہدہ میں آ چکی ہے اور تقریبا آٹھ میل تک اس کی گہرائیوں میں اترا اور وہاں کے عجائب و نوادر کو دیکھا جا چکا ہے۔ بلکہ وہاں کی مختلف چیزوں اور جانوروں کو حاصل بھی کیا جا چکا ہے اور متعدد حیوانوں اور قسم قسم کی مچھلیوں کی آوازیں کہ جن کی وجہ سے سمندر کی تہ میں سکوت و خامشی کے بجائے ہر وقت شور و ہنگامہ برپا رہتا ہے ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ پھر پانی کے اندر مچھلیوں کے سانس لینے کا ذکر فرمایا ہے یہ بھی اس زمانہ کے لحاظ سے حیرت انگیز چیز ہے کہ پانی کی گہرائیوں میں کیونکر سانس لی جا سکتی ہے جبکہ اس میں ہوا کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ مگر عصری تحقیقات نے بتایا ہے کہ پانی کے اندر حل شدہ ہوا موجود ہوتی ہے اور مچھلیوں کے آلات تنفس اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ پانی کے اندر صرف اسی حل شدہ ہوا میں عمل تنفس جاری رکھ سکتی ہیں اور پانی سے باہر نکل آئیں تو سانس نہیں لے سکتیں۔ اس کے برعکس انسان صرف پانی سے باہر رہ کر ہی سانس لے سکتا ہے اور پانی کے اندر اس کی سانس بند ہو جاتی ہے۔ اسی لئے سمندر کی گہرائیوں میں اترنے والوں کو آلات کے ذریعہ باہر سے آکسیجن بہم پہنچائی جاتی ہے۔ مچھلیاں کیونکہ ہمیشہ پانی میں رہتی ہیں اس لئے قدرت نے ان کے سانس لینے کا انتظام بھی پانی کے اندر کر دیا ہے۔ اس طرح کہ جب پانی ان کے منہ میں جاتا ہے تو گلپھڑوں کے اندر پھیلے ہوئے ریشے آکسیجن کو جذب کر لیتے ہیں اور پانی گلپھڑوں کے راستے باہر نکل جاتا ہے اور جن مچھلیوں کے گلپھڑے نہیں ہوتے انہیں سانس لینے کیلئے سمندر کی سطح پر ابھرنا پڑتا ہے۔ یہ در حقیقت مچھلیاں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ مچھلی وہی ہے جو پانی کے اندر رہ کر سانس لے۔ چنانچہ وہیل مچھلی اگر چہ مچھلی کہلاتی ہے، مگر وہ مچھلی نہیں ہے اور نہ اس میں مچھلی کے خواص پائے جاتے ہیں۔ وہ انڈوں کے بجائے بچے دیتی، بچوں کو دودھ پلاتی اور سانس لینے کیلئے سطح سمندر پر ابھرتی ہے۔
پھر مختلف چیزوں کے وزن کا ذکر فرمایا ہے۔ ’’وزن‘‘ سے مراد وہ قوت ہے جو کشش ثقل کی وجہ سے کسی چیز میں پیدا ہوتی ہے اور مرکز سے قرب و بعد کے لحاظ سے کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔
چنانچہ پہلے ’’آسمان و زمین‘‘ کے وزن کا ذکر کیا ہے۔ آسمان کیا ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ یہ اپنے مقام پر طے ہوتا رہے گا۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہماری نگاہ ”حد نظر“ سے آگے نہیں بڑھ سکتی، لہٰذا حد نظر سے آگے کیلئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ نہیں ہے۔ رہی زمین تو وہ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے جس کے متعلق سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ وہ اب سے دو ارب سال پہلے سورج کی کوکھ سے پیدا ہوئی اور مختلف ادوار و حالات سے گزرنے کے بعد اس قابل ہوئی کہ اس پر کوئی ذی روح رہ سکے۔ اس کے وزن کا اندازہ 59,760 سنکھ میٹرک ٹن ہے جو تقریبا 15,97,500 سنکھ من کے مساوی ہوتے ہیں۔ مگر اس میں 50 سنکھ ٹن کی کمی بیشی کا احتمال پیدا کر دیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ابھی زمین کا صحیح صحیح وزن معلوم نہیں ہو سکا اور پیمائش کے لحاظ سے اس کا قطر 7918 میل اور محیط 24,899 میل ہے اور اس حجم کے ساتھ 66,600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد سرگرم سیر ہے۔
پھر ’’چاند اور سورج‘‘ کے وزن کا ذکر فرمایا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرتؑ یہ جانتے تھے کہ یہ چاند اور سورج ہمارے کرہ ارضی کی طرح وزنی کرّے ہیں۔ چنانچہ چاند کا وزن زمین کے وزن کا 1/81 حصہ ہے۔ اور اس کا قطر 2163 میل ہے جو زمین کے قطر کے ایک چوتھائی سے کچھ زیادہ ہے اور 2300 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے گرد رواں دواں ہے۔ اور سورج کا وزن 2,000,000,000,000,000,000,000,000,000 ٹن اور قطر 892,580 میل اور محیط 2,678,500 میل ہے۔ موجودہ دور میں چاند سورج کے قطر و محیط کی پیمائش ایک معمولی بات ہے۔ کیونکہ سائنس نے صحرائے تحقیق میں سالہا سال کی سرگشتگی کے نتیجہ میں ایسے طریقے معلوم کر لئے ہیں جن سے چاند سورج کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ مگر جب عالم آب و گل میں اجرام فلکیہ کی پیمائش کا کوئی تصور بھی پیدا نہ ہوا تھا اس وقت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے سورج کے طول و عرض کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: "تِسْعُ مِائَةِ فَرْسَخٍ فِیْ تِسْعِ مِائَةِ فَرْسَخٍ”: 900×900 فرسخ۔ ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے، لہٰذا حاصل ضرب 2,430,000 میل ہوں گے اور شرعی میل چونکہ رائج الوقت میل سے 240 گز بڑا ہوتا ہے، اس حساب سے تقریبا یہی محیط نکلے گا۔ یہ ہے وہ علم امامت جس کے مقابلہ میں انسان لاکھ اکتشافات و تحقیقات کے فلک بوس محل تیار کرے مگر اس کے کنگرہ کی بلندی کو چھو نہیں سکتا۔ بہرحال یہ عظیم الشان کرّہ جس کا جرم ہماری زمین سے 1,259,709 گنا بڑا اور 3,33,400 گنا بھاری ہے، اپنے محور پر زمین کی طرح گھومتا رہتا ہے اور 25 دن 7 گھنٹہ 48 منٹ میں ایک چکر کاٹ لیتا ہے۔
پھر ’’نور و ظلمت‘‘ کے وزن کا ذکر کیا ہے۔ نور یا روشنی کو ہم ایک احساس سے تعبیر کر سکتے ہیں جو شعاعی قوت سے ہماری آنکھوں میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ شعاعی قوت جس کو ہماری آنکھ محسوس کرتی ہے مرئی و شعاعی قوت کہتے ہیں جو آنکھ اور مرئی چیز کے درمیان ایک واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس طرح کہ روشنی کی لہریں جب کسی جسم مرئی پر گر کر منعکس ہوتی ہیں تو وہ جسم نظر آنے لگتا ہے۔ یہ مرئی شعاعی لہریں بنفشی، نیلی، آسمانی، سبز، زرد، نارنجی اور سرخ رنگوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور سفید روشنی ان تمام رنگوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک مادی و وزنی چیز ہے، کیونکہ قوت اور مادہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور ہر قسم کا مادہ وزن رکھتا ہے۔ سر اسحٰق نیوٹن کا نظریہ یہ تھا کہ روشنی مادہ کی ایک انتہائی لطیف صورت ہے جو ذرات کی صورت میں منور اجسام سے بے حد سرعت کے ساتھ خارج ہوتی ہے۔ اس نظریہ کی بنا پر روشنی کا وزن ظاہر ہے۔ اور موجودہ نظریات کے لحاظ سے بھی جو روشنی میں فوٹون کو ثابت کرتے ہیں اس کے وزن سے انکار نہیں ہو سکتا، کیونکہ فوٹون ایک مادی ہی چیز ہے اور اس کے خصوصیات وہی ہیں جو الیکٹرون (برقیہ) کے ہیں اور الیکٹرون مسلمہ طور پر مادی ہے۔ یہ فوٹون بیسویں صدی میں روشنی کے تجزیہ کے موقع پر دریافت ہوئے۔ یہ انتہائی چھوٹے چھوٹے نقطے ہوتے ہیں اور ارتعاشی لہروں کی صورت میں چلتے اور ہمیشہ رواں دواں اور حرکت میں رہتے ہیں، اس لئے ان کا مشاہدہ حالت سکون میں ناممکن ہے:
روشنی میں وزن کا امکان سب سے پہلے لیون ہارڈیولر نے انیسویں صدی کے آغاز میں ظاہر کیا اور اسی صدی کے آخر میں میکسوئل نے روشنی کے وزن کو دریافت کر لیا اور یہ بتایا کہ روشنی میں بھی ہوا کے تیز جھونکوں کی طرح قوت مخفی ہوتی ہے جو مختصر ذروں کو اپنے راستہ سے ہٹا دے سکتی ہے اور یہ دباؤ بہت ہی ہلکا ہوتا ہے اور عام حالات میں اس کا مشاہدہ بہت مشکل ہے۔آخر سر ولیم کرکس نے ریڈیو میٹر ایجاد کیا جس میں چار پر ہوتے ہیں جو روشنی کے سامنے رکھنے سے گھومتے ہیں اور یہ دباؤ مشاہدہ کے حدود میں آ گیا۔ پھر پیٹر لیڈیو نے ایک بہترین قسم کے ریڈیو میٹر سے روشنی کی پیمائش کر لی۔ یہ پیمائش ایک ایسے پیمانہ سے کی جاتی ہے جس میں انتہائی چھوٹے چھوٹے درجات ہوتے ہیں۔ چنانچہ پہلے درجہ کی لمبائی ایک ملی میٹر کا کروڑواں حصہ ہوتی ہے اور ایک ملی میٹر، میٹر کا ہزاروں حصہ ہوتا ہے اور ایک میٹر تقریبا سوا سترہ گرہ کا ہوتا ہے۔ جب روشنی 3800 درجہ سے متجاوز ہوتی ہے تو دکھائی دیتی ہے اور 5550 درجہ پر پہنچ کر پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔ روشنی کا سب سے بڑا مرکز سورج ہے جس کی سطح سے بلند ہونے والے آتش بار شعلے کبھی کبھی 2,86,000 میل تک کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں۔اور ایک مربع سنٹی میٹر میں جو میٹر کا سواں حصہ ہوتا ہے 50،000 موم بتیوں کی روشنی کے برابر روشنی بھر دیتا ہے اور تمام کرۂ زمین کو جو اس سے روشنی حاصل ہوتی ہے اس کی مقدار سورج کی پوری روشنی سے وہی نسبت رکھتی ہے جو ایک سیکنڈ کو 74 سال سے ہے اور زمین سے دس گنا زائد روشنی اجسام فلکی میں بٹتی ہے اور باقی فضا میں منتشر ہو جاتی ہے اور چاند ایسے 4،65,000 کرے اس کی روشنی سے روشن ہو سکتے ہیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اس تقسیم نور سے سورج کے 4,000,000 ٹن گیسی مادے ایک سیکنڈ میں جل جاتے ہیں مگر پھر بھی اسے ختم ہوتے ہوتے دس ۱رب سال اور لگیں گے۔ بہرحال یہ روشنی کے نقطے جنہیں ارتعاشی لہریں مرئی صورت میں نمایاں کرتی ہیں بعض جگہ اتنی کم مقدار میں ہوتے ہیں کہ آنکھ پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ ایسی جگہ تاریکی کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ یہ تاریکی صرف مرئی شعاعوں سے خالی ہوتی ہے، لہٰذا جس طرح مرئی لہروں کی وجہ سے روشنی میں دباؤ ہوتا ہے ظلمت میں بھی غیر مرئی نقطوں کی وجہ سے دباؤ ہونا چاہیے۔
اہل تحقیق کی یہ کدو کاوش قابل قدر ہے کہ انہوں نے روشنی کی پیمائش کے آلات ایجاد کئے، روشنی کا تجزیہ کیا، اس کے ایک ایک جوہری نقطہ کو تولا، ناپا اور اس کے وزن و مقدار کا اندازہ لگایا۔ مگر یہ کہ اس کائنات میں کتنے اجرام نورانی اور کتنے سورج، چاند اور سیارے ہیں اور کہاں کہاں ان کی روشنی پھیلی ہوئی ہے تو آنکھیں عاجز و درماندہ اور دور بینیں ایک حد پر پہنچ کر سپر انداختہ نظر آئیں گی۔ چنانچہ کہکشاں کا مرکز ہمارے سورج سے 30,000 نوری سال کے فاصلہ پر واقع ہے۔ نوری سال سے مراد وہ فاصلہ ہے جو روشنی اپنی رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے۔ اس کہکشاں میں 40 ارب سورج اور ان گنت سیارے پائے جاتے ہیں اور ہر سورج دوسرے سورج سے ۴ نوری سال کے فاصلہ پر ہے اور ان میں سے اکثر کے گرد ہمارے نظام شمسی کی طرح سیارے گھوم پھر رہے ہیں اور اس کہکشانی قسم کے نظام دس کروڑ سے زیادہ موجودہ دوربینیوں سے دیکھے جا چکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی وسعت ہماری کہکشاں کی وسعت کے برابر ہے اور اتنے ہی سورج ان میں گردش کر رہے ہیں۔ اس عالم کی وسعت و بلندی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ زمین سے قریب ترین ستارے کی روشنی ۴ سال میں زمین تک پہنچتی ہے اور بعض اجرامِ فلکی کی روشنی کو زمین تک پہنچنے کیلئے دس لاکھ سال کی مدت درکار ہے۔
1937ء میں ایک چمک دیکھی گئی جس کی بلندی سے یہ اندازہ لگا گیا کہ 40 لاکھ برس پہلے کوئی ستارہ ٹوٹا ہو گا جس کی روشنی اب نظر آئی ہے اور فلکیات کے ماہر تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بعض ستارے ایسے بھی ہوں گے جن کی روشنی ابھی زمین تک پہنچی ہی نہیں ہے۔ حالانکہ روشنی کی رفتار 1,86,284 میل فی سیکنڈ ہے اور سورج جو ہم سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل کے فاصلہ پر ہے اس کی روشنی 8 منٹ 18 سیکنڈ میں اور چاند کی روشنی ایک سیکنڈ میں زمین تک پہنچ جاتی ہے۔ اور پھر یہ کہ گیسی بادل جو دس لاکھ سے 15 کروڑ نوری سال تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان سے دور تر سحابئے جن کے فاصلے دس کھرب نوری سال تک ہیں ان میں روشنی کی مقدار کتنی اور کہاں کہاں پہنچتی ہے اور انتھاہ تاریکیاں جو ہم سے کالے کوسوں دور ہیں ان میں خلائی شعاعیں (کاسمک ریز) کِس مقدار میں پائی جاتی ہیں اور کہاں کہاں ظلمتوں کے طوفان محیط ہیں تو اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کِس کو ہو سکتا ہے۔ عصرِ جدید نے اگرچہ آلات و گوناگوں ایجادات سے روشنی کے وزن کا انکشاف کیا مگر آئمہ اہل بیت علیہ السلام نے روشنی کے وزن کا اس وقت ذکر کیا جبکہ نہ دوربینیں ایجاد ہوئی تھیں اور نہ لیبارٹریوں کا وجود تھا اور عوام تو عوام خواص کے ذہن بھی اس تصور سے خالی تھے۔ چنانچہ یہ دُعا اس کیلئے شاہد ہے۔ اس کے علاوہ اور ارشاداتِ آئمہؑ میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ: اے فرزندِ رسولؐ! مجھے ستاروں کے دیکھنے سے ایک خاص حظ حاصل ہوتا ہے اور ایک حد تک مجھے اس فن میں مہارت حاصل ہے تو حضرتؑ نے بطورِ امتحان اس سے دریافت کیا کہ: "کَمْ تَسَقِی الشَّمْسُ الْقَمَرَ مِنْ نُّوْرِھَا وَ کَمْ تَسْقِی الشَّمْسَ الْاَرْضَ مِنْ نُّوْرِھَا”: ’’اچھا یہ تو بتاؤ کہ سورج کتنی مقدار میں اپنی روشنی سے چاند کو سیراب کرتا ہے اور کتنی مقدار میں زمین کو سیراب کرتا ہے‘‘؟ اس نے کہا یہ باتیں تو ایسی ہیں جو اس سے پہلے میں نے کبھی سنی ہی نہیں اور نہ ان کا کبھی تصور ہوا ہے۔ [۲]
پھر ’’سایہ‘‘ اور ’’ہوا‘‘ کے وزن کا ذکر کیا ہے۔ سایہ وہی تاریک حصہ ہے جو کثیف اور غیر شفاف اجسام کے امتزاج سے مرئی شعاعوں سے خالی ہوتا ہے، لیکن غیر مرئی شعاعیں اس میں کم و بیش ہوتی ہیں جس سے وہ کبھی زیادہ تاریک اور کبھی کم تاریک ہوتا ہے۔ اور جس طرح کثیف اجسام مرئی شعاعوں کے نفوذ سے مانع ہو کر سایہ کو جنم دیتے ہیں اسی طرح دو روشنیوں کے تصادم سے بھی سایہ نمودار ہوتا ہے جسے ’’ظل نور‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی اسی طرح وزن کا حامل ہوتا ہے جس طرح تاریکی غیر مرئی شعاعوں کی وجہ سے وزن رکھتی ہے اور ہوا بھی ایک مادی اور وزن دار چیز ہے۔ یہ ہوائی کرہ زمین سے دو سو میل سے زائد بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اور زمین سے متصل ہوا کثیف اور بھاری ہوتی ہے اور جوں جوں بلند ہوتی ہے لطیف و سبک ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ 20,000 فٹ کی بلندی پر اس قابل نہیں رہتی کہ انسان اس میں سانس لے سکے۔
سب سے پہلے حسن ابن ہیثم نے ہوا کا وزنی ہونا بتایا اور 1643ء میں اٹلی کے ڈاکٹر ٹروسیلی نے باد پیما (بیرومیٹر) ایجاد کیا اور اس کے وزن اور دباؤ کی مقدار کو معلوم کر لیا۔ اس کا مجموعی وزن 5100 کھرب ٹن ہے اور سمندر کے کنارے ایک مربع انچ میں ہوا کا وزن 14.7/10 پونڈ ہوتا ہے اور ہر شخص 2000 پونڈ وزنی ہوا اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہے۔ اور یہ اللہ کی کرشمہ سازی ہے کہ اس نے انسان کے اندر ہوا بھر کر اس بوجھ کا احساس نہیں ہونے دیا، ورنہ وہ اس بوجھ کے نیچے دب کر رہ جاتا۔ ہوا کا وزن اگر چہ ایک حد تک معلوم کیا جا چکا ہے مگر یہ کہ ان میں درختوں کو بار آور کرنے والی ہواؤں، سطح سمندر سے بخارات اٹھانے والی ہواؤں اور بادلوں کو حرکت میں لانے والی ہواؤں اور اس کی مختلف تہوں کا وزن کیا ہے؟ اور دوسرے کرّوں اور سیاروں پر ہوا کی مقدار اور نوعیت کیا ہے؟ اور ان میں آکسیجن، نائیٹروجن اور دوسری گیسوں کی مقدار کتنی ہے؟ تو قیاس آرائیوں کے علاوہ یقین کے ساتھ کچھ نہ بتایا جا سکے گا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے اور وہی ان ہواؤں کے محل و مقام، وزن و مقدار، اجزا اور اجزا کی کمیت و کیفیت سے واقف ہے اور اس کا علم کلیات و جزئیات، ظواہر و بواطن اور غیوب و شہود پر یکساں محیط ہے اور کوئی چیز اس کے دائرہ اطلاع سے خارج، اس کے احاطۂ نگاہ سے باہر اور اس کے علم سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ کیونکہ ذاتِ الٰہی کیلئے جہل اگرچہ وہ چھوٹی سے چھوٹی اور مخفی سے مخفی چیز کے متعلق کیوں نہ ہو نقص ہے اور نقص اس کے کمالِ ذات کے منافی ہے۔
٭٭٭٭٭
[۱]۔ سورہ آل عمران، آیت ۵
[۲]۔ بحار الانوار، ج ۵۵، ص ۲۵۰