فَاسْتُرِ العَوْرَةَ مَا اسْتَطَعْتَ۔ (خط ۵۳)
جہاں تک بن پڑے عیبوں کو چھپاؤ ۔
امیرالمؤمنینؑ نے اس حصے میں ایک حکمران یا ادارے کے سربراہ کے طور پر حکم دیا ہے کہ آپ اپنے ماتحت کے رازوں کو راز رہنے دیں اور ان کے عیوب لوگوں کے سامنے مت لائیں۔ عیب پوشی ایک اچھی صفت ہے۔ جس انسان کے اپنے اندر عیوب پائے جاتے ہیں یا اس سے کوئی خطا سرزد ہوتی ہے تو اپنی خطا پر خود پردہ ڈالے اور دوسروں سے انہیں مخفی رکھے۔ اور اگر وہ کسی کے گناہ سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس کا اخلاقی فریضہ ہے کہ اس کو پردے میں رہنے دے۔ جو لوگ دوسروں کے عیبوں سے پردہ ہٹاتے ہیں۔ حاکم کے سامنے آ کر ان کے عیب بیان کرتے ہیں تو حاکم کے ہاں ایسے افراد کی اہمیت نہیں ہونی چاہیے اور مالک اشتر سے فرمایا کہ آپ جیسے یہ چاہتے ہیں کہ آپ سے کوئی خطا سرزد ہو تو دوسرے اس پر پردہ ڈالیں یا جیسے چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کے گناہوں پر پردہ ڈالے تو یہی عمل خود بھی انجام دیں اور دوسروں کے عیبوں کو مت اچھالیں۔ پردے چاک کرنا ایک انسانی اخلاقی کمزوری ہے، اس سے محفوظ رہ کر انسان اپنے اخلاقی مقام کو بلند کر سکتا ہے۔