اِعتَبِرْ بِمَا مَضٰی مِنَ الدُّنْيَا لِمَا بَقِيَ مِنْهَا۔ (خط ۶۹)
گزری ہوئی دنیا سے باقی دنیا کے بارے میں عبرت حاصل کرو۔
زندگی کا یہ مختصر دستور العمل تینتیس ’’33‘‘ اصولوں پر مبنی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اپنے نہایت ہی پیارے ساتھی حارث ہمدانی کو سعادت مند زندگی کے یہ اصول تعلیم فرمائے۔ گویا یہ استاد کے شاگرد کو، دوست کے دوست کو اور امام کے ماموم کو دیے ہوئے درس ہیں۔ یہ کامیاب زندگی کا ایک جامع اور مختصر باب ہے۔ سب سے پہلے آپؑ نے قرآن مجید سے نصیحت حاصل کرنے کی تاکید فرمائی اور دنیوی اور اُخروی زندگی کی سعادت کے اس اصول کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ پھر قرآنی اصولوں کو اپنے الفاظ میں واضح فرمایا۔ اس فرمان میں دنیا کو ایک کمرہ امتحان قرار دیا۔ اس کمرے کو سامنے رکھا جائے کچھ حصہ اس امتحان کا گزر گیا اور کچھ گزر رہا ہے۔ اس امتحان گاہ میں باقی وقت میں کیا کرنا ہے۔ اگر کوئی دنیا کی حقیقت کو سمجھ لے اور یقین کر لے کہ یہ باقی رہنے والی نہیں ہے مگر اس سے وہ کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جو باقی رہ جائے گا۔ مثلاًکچھ ایسے کام کر جائیں جن کے فوائد دیرپا ہوں اور جن سے آئندہ آنے والوں کی زندگیاں سنور سکیں تو آپ کے چلے جانے کے بعد بھی آپ باقی ہیں چونکہ آپ کا کام باقی ہے۔ امیر المؤمنینؑ کے اس فرمان میں اہم سبق یہ ہے کہ گزشتہ لوگوں کی زندگیوں سے عبرت حاصل کریں اور زندگی کے بنیادی اصولوں کو تاریخ کے اوراق سے سیکھ کر اپنی زندگی کے لیے مناسب فیصلے کریں اور اپنی زندگی کے گزشتہ دنوں کے تجربات سے سبق حاصل کریں اور ان تجربوں کی روشنی میں قدم آگے بڑھائیں اور اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں۔