وَاحْذَرْ صَحَابَةَ مَنْ يَفِيْلُ رَاْيُهٗ، وَيُنْكَرُ عَمَلُهٗ فَاِنَّ الصَّاحِبَ مُعْتَبِرٌ بِصَاحِبِہٖ۔ (خط ۶۹)
اس آدمی کی صحبت سے بچو جس کی رائے کمزور اور عمل برے ہوں کیونکہ آدمی کا اس کے ساتھی پر قیاس کیا جاتا ہے۔
انسان معاشرتی مخلوق ہے۔ مل جل کر رہنے والی مخلوق ہے۔ انسان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور مدد لیتے ہیں۔ اس فرمان میں آپ ؑ نے خبردار کیا ہے کہ جس کی فکر اور رائے ضعیف و کمزور ہو یا جس کے اعمال کمزور اور غلط ہوں اس کی صحبت سے دور رہیں اور وجہ بھی واضح فرمائی کہ انسان کو اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں آپ نے کمزور رائے والے کی صحبت سے بچنے کا پہلے ارشاد فرمایا اس لیے کہ اگر کسی کا نظریہ اور سوچ کمزور ہو گی تو اس کے اعمال بھی اسی سوچ کے مطابق ہوں گے جو یقینا کمزور ہوں گے۔ کمزور رائے والے آدمی کے ساتھ یا تو اس کی اصلاح و ہدایت کے لیے بیٹھا جائے یا پھر خود کو اس سے الگ رکھا جائے۔ غلط اور کمزور سوچ والے آدمی کے ساتھ آپ بیٹھیں گے تو وہ کوشش کرے گا کہ آپ کو بھی اپنا ہم فکر بنا لے۔ آپ اگر بار بار ایک بات اس سے سنیں گے تو آپ کی صحیح سوچیں کمزور پڑنا شروع ہو جائیں گی۔ اسی طرح اگر کسی کا عمل غلط ہے اور آپ کا اور تو اس میں کوئی حصہ نہیں مگر اس غلط عمل کے وقت یا پہلے یا بعد میں آپ اس کے ساتھ بیٹھے ہیں تو آپ کا شمار بھی اسی قسم کے لوگوں میں ہونے لگے گا۔