اَزْرٰى بِنَفْسِهٖ مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ۔ (حکمت ۲)
جس نے لالچ کو عادت بنا لیا اس نے خود کو پست و حقیر کیا۔
اللہ سبحانہ نے انسان کو عظمت و کرامت سے نوازا اور انسان سے یہی چاہا کہ اس عزت و کرامت کو باقی رکھے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس کرامت تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہیں یا اس کرامت کے حصول کے بعد اسے نقصان پہنچاتی ہیں۔ اللہ والوں نے ان رکاوٹوں اور نقصان پہنچانے والے افعال سے بچ کر دکھایا بھی اور بتایا بھی۔ اس فرمان میں امیرالمومنینؑ نے طمع و حرص کو نفس انسانی کو پست و حقیر کرنے کا سبب قرار دے کر اس خطرے سے آگاہ کیا ہے۔ یوں اُس سے بچنے کی ترغیب دلائی ہے۔
طمع و حرص: یعنی اپنے حق و ضرورت سے زیادہ کی طلب۔ کسی شخص کا کسی چیز کی یوں خواہش کرنا کہ وہ شے یا ضرورتِ زندگی دوسروں کو ملے یا نہ ملے مجھے ملنی چاہئیں۔ ایسا حریص شخص اپنی من پسند چیز کے حصول کے لئے ہر ذلّت اٹھاتا ہے اور ہر شخص کے سامنے دستِ سوال پھیلاتا ہے اور یوں اپنی عزت و کرامت کو ذلت و خواری میں بدل لیتا ہے۔ طمع کے مقابل قناعت کی عادت ہے جس کی اہمیت و عظمت اپنے مقام پر بیان ہوگی۔