اَلْمُقِلُّ غَرِيْبٌ فِيْ بَلْدَتِهٖ۔ (حکمت ۳)
مفلس اپنے شہر میں رہ کر بھی پردیسی ہوتا ہے۔
فقر و افلاس کا ایک اثر امیرالمومنینؑ نے یہاں بیان فرمایا ہے۔ اس مفہوم کے چند جملات آپ علیہ السلام سے نقل ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا پرست فقیر و تنگدست سے دور رہتے ہیں چاہے وہ اپنا بھائی اور رشتہ دار ہو اور چاہے اپنا ہمسایہ یا ہم شہری ہو۔ اس لیے غریب یعنی جس کا کوئی دوست و شناسا نہ ہو جسے ملنے ملانے والے نہ ہوں لہٰذا آپؑ فرماتے ہیں: مفلسی وطن میں بھی پردیس بنائے رکھتی ہے اور اگر کسی کے پاس دولت ہے تو وہ دوسرے شہروں میں بھی تنہا نہیں
مقل: اس فقیر کو کہتے ہیں جو فقر کا اظہار نہیں کرتا بلکہ خود دار بن کر رہتا ہے۔ کسی عرب شاعر کا قول ہے کہ دور والے کو پردیسی نہ سمجھو پردیسی وہ ہے جس کے پاس مال کم ہے۔ امیرالمومنینؑ ان جملوں سے فقر کے خلاف جنگ پر آمادہ کر رہے ہیں اور ساتھ اس طرف بھی توجہ دلا رہے ہیں کہ دولت کے نشے میں کوئی ضرورت مند و مفلس کو بھول نہ جائے بلکہ اسے یقین ہو کہ انسان کی اصل اس کی انسانیت ہے نہ کہ مال۔ اس لیے کہ مال آنے جانے کی چیز ہے۔