اَلْعَجْزُ اٰفَةٌ۔ (حکمت ۳)
عاجزی و درماندگی مصیبت و آفت ہے۔
کمال کی منزلوں کو طے کرنے کے لئے قدرت و طاقت لازمی ہے تاکہ انسان ان بلند اور مشکل منزلوں اور راہوں کو طے کر سکے۔ اس قدرت کا نہ ہونا عاجزی کہلاتا ہے۔ اب اگر یہ قدرت نہیں تو بڑی مصیبت و آفت ہے کیونکہ اس قدرت کے نہ ہونے یعنی عاجز ہونے کی صورت میں کمال کا حصول ممکن نہ ہوگا۔ اب یہ عدم قدرت و عاجزی جسمانی ہو سکتی ہے، مالی ہو سکتی ہے، علمی ہو سکتی ہے، اور روحانی بھی ہو سکتی ہے، عاجز انسان ہمیشہ ذلیل و خوار ہوگا اور عقب ماندہ ہوگا۔ یہ عجز اکثر انسان کی سستی و کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے اسلام سعی و کوشش کی تاکید کرتا ہے تاکہ عاجز نہ ہو اور اس آفت سے محفوظ رہے۔ اس فرمان میں گویا امیرالمومنینؑ خبردار کر رہے ہیں کہ زندگی میں سستی و بد نظمی سے بچو اس لئے کہ سستی و بدنظمی عاجز بنائے گی اور عجز انسانیت کے لئے مصیبت و آفت ہے۔