اَلْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَهٌ۔ (حکمت ۴)
آداب و اخلاق نیا اور جدید لباس ہیں۔
آداب: یعنی وہ انسانی صفات و عادات جنہیں عقل مند قابل تعریف جانتے ہیں۔ یہ کسی فرد میں بھی ہو سکتے ہیں اور قوم میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ جیسے سچائی، نظم و ضبط، قوت برداشت، تواضع، امانت داری، محبت، خوش خلقی، طرز کلام وغیرہ۔
حلل: یعنی وہ لباس جو پورے بدن کو ڈھانپ لے اور بدن کے عیوب کو اپنے اندر چھپا لے۔ امیرالمومنینؑ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح نیا لباس انسان کے عیوب پر پردہ ڈالتا ہے اور ساتھ زینت کا سبب بنتا ہے اور سردی گرمی سے بھی بچاتا ہے اسی طرح نیک عادات و آداب انسان کے عیوب پر پردے کا سبب بنتے ہیں اور زینت کا ذریعہ بھی قرار پاتے ہیں۔ بعض حکماء کہتے ہیں کہ جیسے بدن لباس کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح عقل آداب کی محتاج ہوتی ہے اور جیسے کچھ لباس قومی لباس بن جاتے ہیں اسی طرح کچھ آداب قومی آداب بن جاتے ہیں اور قومی آداب شخصی و انفرادی آداب سے زیادہ اہم ہیں۔
انسان اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے ظاہری آداب و اطوار کو سنوارنا چاہیے چونکہ یہ اس کی شخصی یا قومی پہچان ہیں۔ یہاں ضرورت ہے کہ ہر آدمی اپنے آداب کو بہتر سے بہتر بنائے تاکہ اسے یہ نہ کہنا پڑے کہ میرا باپ کیا تھا بلکہ عمل سے خود ظاہر ہو ۔ نہج البلاغہ میں امامؑ نے متعدد آداب کا ذکر کیا ہے جو اپنے مقام پر بیان ہوں گے۔