اَلْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ۔ (حکمت ۴)
فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔
جس طرح انسان شفاف آئینہ میں اپنی حقیقی شکل دیکھتا ہے اور پھر اُسے سنوارتا ہے اسی طرح انسان کی عملی زندگی میں بھی ایک صاف شفاف آئینہ ضروری ہے تاکہ انسان اپنے آئندہ کے ارادوں کو حقیقی صورت میں دیکھ سکے اور اسی کے مطابق قدم اٹھائے اور اُس کے درکار مقدمات مہیا کرے۔ ظاہری بدن کو دیکھنے کے لئے صاف آئینہ چاہیے تو اعمال کے لئے امیرالمومنینؑ نے فکر کو آئینہ قرار دیا ہے۔
قرآن کریم نے فکر کو بہت اہمیت دی ہے اور بہت سے واقعات بیان کرنے کے بعد انسان کو تدبر و تفکر کی دعوت دی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر کا آئینہ نہ فقط اس وقت کی نیت و ارادہ کی حقیقت کو دیکھتا ہے بلکہ اس آئینۂ فکر میں ماضی کے واقعات بھی سما سکتے ہیں اور مستقبل کی تصویریں بھی آ سکتی ہیں۔ یوں انسان جب کام کو انجام دینا چاہتا ہے مکمل طور پر اس کی حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے اور جب کسی عمل کی طرف بڑھنے سے پہلے حقائق سامنے ہوں گے تو اس میں کامیابی کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ آپؑ نے آئینہ کے ساتھ صاف شفاف کی صفت ذکر کی ہے۔ جس طرح آئینہ اگر دھندلا ہو تو حقیقی چیز نہیں دکھاتا اسی طرح فکر بھی بہت سی چیزوں سے دُھندلا جاتی ہے۔ کبھی آباؤ اجداد کی رسومات، کبھی اندھی تقلید، کبھی خود شناسی سے غفلت، اگر ان دھندلکوں کے ساتھ سوچے گا تو حقیقی تصویرِ عمل نظر نہیں آئے گی جس کی وجہ سے انسان ناکام ہوگا۔