صَدْرُ الْعَاقِلِ صُنْدُوْقُ سِرِّهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۵)
عقلمند کا سینہ اُس کے رازوں کا خزینہ ہوتا ہے۔
انسان زندگی میں ہر اُس چیز کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے سکون کا سبب بنے۔ انسانی سکون کو متأثر کرنے والے امور میں سے ایک اُس کے راز کا افشا ہو جانا ہے۔ گزشتہ زندگی کےکچھ حالات و واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ اگر دوسروں کو ان کا علم ہو جائے تو انسان کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ واقعات جب ہوئے تو ان پر پردہ پڑا رہا اب اگر کسی کے سامنے ان رازوں کو خود افشا کرتا ہے تو یہ ایک نہایت ہی احمقانہ عمل ہوگا کہ اپنی ذلت و رسوائی کا خود سبب بن رہا ہے اس لئے امامؑ رازوں کی حفاظت کی اہمیت بتاتے ہوئے عقل مند کی یہ نشانی بتا رہے ہیں کہ اس کا سینہ رازوں کو یوں محفوظ رکھتا ہے جیسے صندوق خزانے کو۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی شخص کو بہت مخلص دوست سمجھ کر اپنے رازوں سے آگاہ کرتا ہے مگر بقول شیخ سعدی اس دوست کے بھی مخلص دوست ہوتے ہیں وہ ان پر اعتماد کرتے ہوئے وہ راز ان کو بتا دیتا ہے اور پھر یہ بات اس پہلے شخص کی رسوائی اور بہت دفعہ بلیک میلنگ کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لئے عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے رازوں کو محفوظ رکھے اسی طرح کسی کا راز اس کے پاس آ جائے تو اسے بھی امانت سمجھ کر حفاظت کرے۔