اَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اكْتِسَابِ الْاِخْوَانِ، وَاَعْجَزُ مِنْهُ مَنْ ضَيَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِهٖ مِنْهُمْ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۱)
لوگوں میں سے سب سے عاجز وہ ہے جو اپنی عمر میں دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ عاجز وہ ہے جو بنائے ہوئے کھو دے۔
امیرالمومنینؑ نے اپنے فرامین میں دوستی کو بہت اہمیت دی ہے اور اس حوالے سے ہر پہلو سے گفتگو کی ہے۔ گاہے انسان دوست بنانے کی کوشش نہیں کرتا ہے جب کہ اسے دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور دوستی کی اہمیت کے لئے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہر شی کی کوئی نہ کوئی زینت ہوتی ہے اور انسان کی زینت اُس سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔
علامہ مفتی جعفر حسینؒ اس فرمان کی شرح میں لکھتے ہیں: خوش اخلاقی و خندہ پیشانی سے دوسروں کو اپنی طرف جذب کرنا اور شیریں کلامی سے غیروں کو اپنانا کوئی دشوار چیز نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے نہ جسمانی مشقت کی ضرورت اور نہ دماغی کدو و کاوش کی حاجت ہوتی ہے، اور دوست بنانے کے بعد دوستی اور تعلقات کی خوشگواری کو باقی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ دوستی پیدا کرنے کے لیے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے مگر اسے باقی رکھنے کے لیے تو کوئی مہم سر کرنا نہیں پڑتی۔ لہذا جو شخص ایسی چیز کی بھی نگہداشت نہ کر سکے کہ جسے صرف پیشانی کی سلوٹیں دور کرکے باقی رکھا جا سکتا ہے اس سے زیادہ عاجز و درماندہ کون ہو سکتا ہے۔مقصد یہ ہے کہ انسان کو ہر ایک سے خوش خلقی و خندہ روئی سے پیش آنا چاہیے تاکہ لوگ اس سے وابستگی چاہیں اور اس کی دوستی کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔