مَنْ اَسْرَعَ اِلَى النَّاسِ بِمَا يَكْرَهُوْنَ قَالُوْا فِيْهِ بِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۵)
جو لوگوں کے بارے میں فوراً ایسی بات کہہ دیتا ہے جو اُنہیں ناگوار گزرے تو لوگ بھی اس کے لئے ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں وہ جانتے بھی نہیں۔
انسان اپنی عزت و وقار کا خود محافظ ہوتا ہے۔ دوسرے انسانوں سے تعلقات و روابط بھی اس کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں ان دونوں چیزوں کے لئے ایک اہم اصول بیان فرمایا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جس سے بات کہہ رہے ہیں اس کی سطح فکر اور معیار عقل کو مد نظر رکھیں اور کب، کیسے، کیا کہنا ہے اس کا خیال رکھیں۔ اگر فوراً کسی کے لئے ایسی بات کہی جائے جو اس کی طبیعت کو ناگوار گزرے، تو وہ اس کے مقابلے میں اس کی برائیوں کا تذکرہ کرے گا اور اس میں اگر کوئی عیب نہ بھی ظاہر ہو تو بہتان تراشی کرے گا اور وہ عیوب اس سے منسوب ہوں گے جن کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ اس لئے دوسروں کے عیب تلاش کرنے یا بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔ اگر کسی کی اصلاح کرنا مقصود ہو تو تنہائی میں مہذب انداز سے بات کی جائے۔
یعنی دوسروں کا احترام کریں تاکہ آپ کا احترام کیا جائے۔ مزاح کی صورت میں بھی دوسروں کو تکلیف پہنچانے والی گفتگو سے پرہیز کیا جائے ورنہ وہ مقابلے میں مزاح کے طور پر آپ کے لئے بھی ایسی بات کہیں گے جو آپ کو ناگوار گزرے گی۔