اَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۸)
سب سے بڑی دولت عقل و دانش ہے۔
مخلص راہنما اپنی کامیابیاں اپنے یا اپنی اولاد تک محدود نہیں رکھتے بلکہ ہر انسان کو ان میں شامل کرتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے بھی اس فرمان میں اپنے بیٹے امام حسنؑ کو انسانی کامیابی و سعادت کے اصولوں سے آگاہ فرمایا ہے۔ اور اسی تحریر کے ذریعے پوری انسانیت کو سعادت کی راہوں سے آگاہ کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ چار چیزیں لینے کی اور چار چیزیں چھوڑنے کی تلقین کرتا ہوں اور اگر ان کو سمجھ لیا اور ان پر عمل کر لیا تو کبھی زندگی میں گھاٹا نہیں کھاؤ گے۔ پہلی چیز جو تمہیں لینی ہے وہ یہ ہے کہ یاد رکھو سب سے بڑی دولت و سرمایہ کا نام عقل ہے۔ عقلمند آدمی معنوی طور پر بھی دولت مند ہے اور اُخروی اعتبار سے بھی کامیاب۔ معنوی طور پر عقل اُسے فضائل اخلاقی سے مزین ہونے میں مدد کرتی ہے، اچھے اعمال کی ترغیب دیتی ہے اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ یوں انسان کمال کی طرف گامزن رہتا ہے۔ مادی طور پر عقل مند اچھی تدابیر، صحیح فیصلے، دوسروں سے عقلمندانہ برتاؤ، دوستی و دشمنی کی پہچان، مواقع سے صحیح استفادہ اور زندگی میں نظم و ضبط جیسے اقدام سے ترقی و کامیابی کے ذرائع کو جمع کر لیتا ہے، یوں عقل سے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرتا ہے اور اس ساری دولت کے حصول کے ذریعے کا نام عقل ہے۔