شمع زندگی

189۔ ادب

لَامِيْرَاثَ كَالْاَدَبِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۵۴)
ادب جیسی کوئی میراث نہیں۔

وہ سرمائے جن کی وجہ سے انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے، اُن میں سے ایک ادب ہے۔ ادب ایسا سرمایہ ہے جو کمایا بھی جا سکتا ہے جس کے لئے استاد کا میسر آنا ضروری ہے اور ممکن ہے حصول ادب کے لئے پوری زندگی خرچ ہو جائے۔ یہاں امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں بہترین میراث جو انسان کو اپنے آباء و اجداد سے اور گزشتہ نسلوں سے مل سکتی ہے، وہ ادب ہے۔

ادب یعنی لوگوں سے اچھا برتاؤ، خود کو اچھے اخلاق سے مزیّن کرنا اس انداز سے کہ یہ اخلاق طبیعت کا حصہ بن جائے۔ با ادب وہ ہے جو بولتا ہے تو دوسروں کے احترام کے ساتھ، اگر کوئی بولتا ہے تو یہ بہترین سننے والا ہوتا ہے کسی سے اختلاف ہو تو بھی احترام ملحوظ خاطررکھتا ہے، غیر سنجیدہ آدمی سے جھگڑے کی نوبت نہیں آنے دیتا۔ حکماء نے ادب کی درجنوں تعریفیں کیں، امیرالمومنینؑ نے دو لفظوں میں نچوڑ پیش کر دیا۔ کسی عظیم حکیم نے کہا کہ ادب سفر کا ساتھی، تنہائی کا مونس، محفل کی زینت اور حاجت برآوی کا سبب ہے۔ ایک اورحکیم کہتے ہیں کہ باپ اولاد کے لئے جو سرمایہ چھوڑ جاتا ہے اس میں سے قیمتی ترین ادب ہے کیونکہ ادب سے باقی چیزوں کو کما سکتا ہے، مال و عزت حاصل کر سکتا ہے لیکن ادب کے بغیر فقط مال چھوڑ جائے گا تو بے ادبی سے سب کچھ کھو دے گا۔ وہی مال جرائم کا سبب بن جائے گا۔ ایک حکیم کا کتنا پیارا جملہ ہے کہ کوئی چھوٹی عمر میں اولاد کو ادب سکھا جائے تو اُس نے اُسے بڑا بنا دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button