195۔ سلام
اِذَا حُيِّيْتَ بِتَحِيَّةٍ فَحَيِّ بِاَحْسَنَ مِنْهَا۔ (نہج البلاغہ حکمت ۶۲)
جب تم پر سلام کیا جائے تو اُس سے اچھے طریقہ سے جواب دو۔
انسان میں محبت و الفت کے رشتوں کو جوڑنے کے لئے یہ بہترین اصول ہے۔ پھر اُن تعلقات کو مضبوط کرنے لئے بھی مددگار ہے۔ سلام: یعنی آپ کی زندگی و سلامتی و خوشی چاہنے کا زبان سے اظہار کرنا۔ آپ اُس اظہار کو بلا جواب نہ چھوڑیں اور دیر بھی نہ کریں اور جس انداز سے اُس نے محبت کا اظہار کیا ہے اُس سے بہتر انداز میں آپ بھی اظہار کریں۔ یہ ایک قرآنی اصول ہے جسے امیرالمومنینؑ نے دہرایا ہے۔ آپؑ پھر فرماتے ہیں جب تم پر کوئی احسان کرے یا ہدیہ دے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو مگر یاد رکھو شرف و فضیلت اس صورت میں بھی پہل کرنے والے ہی کے لئے ہوگی۔ سلام اور ہدیہ دونوں محبت بڑھانے کا ذریعے ہیں اس میں جو پہل کرتا ہے اسے سراہا گیا ہے اور جس پر سلام کیا گیا یا جسے ہدیہ دیا گیا، اسے تشویق دلائی گئی ہے کہ قبول کرو، رد نہ کرو اور قبول کر کے اسے بدلے کے بغیر نہ چھوڑو بلکہ اس سے بڑھ کر بدلہ دو۔ بڑھ کر بدلہ دینے کے باوجود پہلے کو فوقیت کا یہ سبب ہے کہ اُس نے بغیر کسی توقع کے ابتدا کی تھی، اُس سے اچھائی میں پہل کرنے کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا۔