196۔ غفلت
اَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ یُّسَارُ بِهِمْ وَ هُمْ نِيَامٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۶۴)
دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جنہیں لے جایا جا رہا ہے اور وہ سو رہے ہیں۔
اس فرمان میں دُنیا کو راہ و سفر سے تشبیہ دی گئی ہے اور دُنیا والوں کو سوار و مسافر قرار دیا گیا ہے۔ مگر ایسے سوار جو غفلت کی نیند سو رہے ہیں جن کو لے جایا جا رہا ہے۔ مگر انہیں نہیں معلوم کہاں لے جایا جا رہا ہے، نہ راہ کا نہ ہمراہ کا، اور نہ ہی راہنما کا علم ہے سب کچھ بھلا کر اور غفلت میں پڑے سو رہے ہیں۔ مگر ان کا سفر جاری ہے اس مفہوم کو نہج البلاغہ کے علاوہ ایک اورمقام پر امام ؑنے یُوں بیان فرمایا: ’’اَلنَّاسُ نِيَامٌ فَاِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَهُوْا”. لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مریں گے تو جاگیں گے۔ ایک جرمن خاتون (میری شیمل) نے،جو عربی پر عبور رکھتی تھی اور کئی کتابوں کی مصنف تھیں اپنی زندگی میں اپنی قبر کے کتبہ پر یہ فرمان جرمن میں ترجمہ کے ساتھ لکھوایا جو بون (جرمنی) میں اب اُن کی قبر پر آویزاں ہے۔
اس فرمان کے ذریعے آپؑ اہل دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتے ہیں جو بیدار ہو گا وہ زندگی کا مقصد و ہدف خود طے کرے گا اور انہی راہوں پر چلے گا جو اُسے منزل تک پہنچائیں گی۔ مگر جو منزل سے غافل سویا ہوا ہے۔ ٹرینوں کے مسافر کئی دفعہ نیند میں ہوتے ہیں اور وہ اسٹیشن گزر جاتا ہے جہاں انھیں اُترنا ہوتا ہے۔ نہیں معلوم کب جاگیں گے اور کیسے واپس جائیں گے اور اس کے لئے انہیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن زندگی کا مسافر اگر سو کر اپنی منزل کو کھو بیٹھا تو اسے پھر کبھی پلٹنے کا موقع نہیں ملتا۔ علامہ اقبال کی فارسی کلام میں اس مفہوم کی ایک مکمل نظم ہے۔
از خوابِ گراں،خوابِ گراں،خوابِ گراں خیز
گہری نیند، گہری نیند، گہری نیند سے جاگ