198۔ نا اہل سے سوال
فَوْتُ الْحَاجَةِ اَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا اِلٰى غَيْرِ اَهْلِهَا۔ (نہج البلاغہ حکمت ۶۶)
حاجت و ضرورت کا پورا نہ ہونا نا اہل سے مانگنے سے بہتر ہے۔
انسان کو اپنی عزت خود ہی بنانا ہوتی ہے اور اُس کی حفاظت بھی خود ہی کرنی ہوتی ہے۔ اسے زندگی میں بار ہا دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے جیسے دوسرے اس کی مدد کے محتاج ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ضرورت پڑنے پر دیکھے کہ کس کے آگے ہاتھ پھیلانا ہے۔ اگر کسی شریف سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے تو ٹھیک ورنہ کسی شریر و نا اہل کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے مقصد و ضرورت سے محرومی کو برداشت کر لے مگر نا اہل و پست کا ممنون احسان نہ بنے۔
رسول اللہؐ کے سامنے کسی نے دعا مانگی۔ خدایا !مجھے مخلوق کا محتاج نہ بنا۔ آپ نے فرمایا ایسے نہ کہو اس لئے کہ ہر انسان دوسرے کا محتاج ہوتا ہے بلکہ یوں کہو: خدایا! مجھے شریر و پست کا محتاج نہ کر۔ پوچھا گیا: یا رسولؐ اللہ! وہ شریر کون ہے۔ فرمایا: اگر دے گا تو احسان جتائے گا اور احسان جتائے گا تو عیب نکالے گا کہ فلاں بڑا کمزور و حقیر ہے۔
حکماء نے پست و نا اہل سے سوال کو موت سے بھی سخت قرار دیا ہے۔ سعدی نے گلستان میں لکھا ہے کہ اگر کہیں بے آبرو ہو کر آب حیات مل رہا ہو تو عقل مند اُس مرض سے مر جائے گا یہ سودا نہیں کرے گا کیونکہ مر جانا ذلّت کے ساتھ زندہ رہنے سے بہتر ہے۔ اس فرمان میں جہاں یہ تاکید کی گئی ہے کہ نا اہل سے سوال نہ کرو، ضمناً یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر کبھی کوئی شریف کسی مجبوری کے تحت آپ کے سامنے دست سوال پھیلائے تو آپ نے اس کی عزت و شرافت کو بچانا ہے اور اس کی حاجت پوری کرنی ہے، اس سے آپ کی عزت و شرافت بڑھے گی اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے محفوظ رہیں گے۔ میر تقی میر کہتے ہیں:
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز