201۔ جہالت
لَا تَرَی الْجَاھِلَ اِلَّا مُفْرِطًا اَوْ مُفَرِّطًا (نہج البلاغہ حکمت ۷۰)
جاہل کو حد سے آگے بڑھا ہوا یا اس سے بہت پیچھے پاؤ گے۔
انسان کی پہچان ایک ایسا موضوع ہے جس سے ہر کسی کو واسطہ پڑتا ہے۔کوئی شخص کسی کے ساتھ مختصر وقت گزارنا چاہتا ہے یا ایک مختصر سے سفر پر کسی کے ساتھ جانا چاہتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی پہچاننے والے کا ہم سفر ہو۔ انسان کی زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ انسان جاہل ہوتا ہے اور عالم ہوتا ہے۔ عالم اور جاہل انسان کی پہنچان مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہے۔ امیر المؤمنینؑ نے یہاں جاہل کی پہچان ان الفاظ میں کرائی کہ وہ حد وسط و اعتدال سے یا آگے بڑھ جائے گا یا بہت پیچھے رہ جائے گا۔ کسی شخص کی افراط و تفریط کی یہ روش اس کی جہالت کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ افراط و تفریط یا کمی و پیشی انسان کی شخصی زندگی میں بھی ہو سکتی ہے اور معاشرتی زندگی میں بھی۔ اخلاقیات میں بھی ہو سکتی ہے اور عقائد میں بھی۔ مثلاً کھانے میں ایک شخص اتنی احتیاط کرنے لگتا ہے کہ اس کا جسم لاغر ہو جاتا ہے اور اس کی صحت متاثر ہونے لگتی ہے اور کبھی کوئی کھانے میں اتنا زیادہ کھاتا ہے کہ اس کا جسم موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ غذا میں افراط و تفریط ہے۔
اخلاقیات میں بعض لوگ دوسروں پر اتنا شک کرنے لگتے ہیں کہ اپنی بھی اور دوسروں کی زندگی کو بھی جہنم بنا دیتے ہیں اور بعض لوگ اتنے بے پرواہ ہو جاتے ہیں کہ ہر جائز و ناجائز کو انجام دیتے رہتے ہیں۔ کچھ اچھائی کو برائی اور کچھ برائی کو اچھائی شمار کرنے لگتے ہیں۔ عقائد میں بھی یہ چیز عام نظر آتی ہے کہ بعض افراد کچھ لوگوں کو خدا بنا بیٹھتے ہیں اور بعض خدا کو بھی بھلا بیٹھتے ہیں۔ امامؑ نے یہاں ایک طرف جاہل کی نشانی بتائی ہے اور دوسری طرف افراط و تفریط کی مذمت بیان کی ہے۔
انسان اگر پرسکون اور کامیاب زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو اسے حد اعتدال کا خیال رکھنا چاہئے۔ ممکن ہے وہ بہت تعلیم حاصل کر چکا ہو مگر امامؑ کے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھتا تو جاہل و نادان گنا جائے گا۔