203۔ راہنما کی ذمہ داریاں
مَنْ نَصَبَ نَفْسَهٗ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَاْ بِتَعْلِيْمِ نَفْسِهٖ قَبْلَ تَعْلِيْمِ غَيْرِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۷۳)
جو لوگوں کا راہنما بنتا ہے اسے دوسروں کو سکھانے سے پہلے خود سیکھنا چاہیے۔
یہ کسی قوم کا راہنما یا کسی گروہ کا معلم بننے کے خواہشمند کے لیے ایک خوبصورت اصول ہے۔ آج لیڈر شپ کے نام سے بڑے بڑے پروگرام انجام دیے جاتے ہیں جن کا خلاصہ اس فرمان میں آ گیا ہے کہ اگر واقعاً راہنما بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس راہ کو جانو جس پر دوسروں کو چلانا چاہتے ہیں۔ آدمی راہنمائی کے لیے آگے بڑھے اور خود کو راہ کا پتہ ہی نہیں تو یہ دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔ یا کوئی چیز کسی کو سکھانا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اس فن میں خود مہارت حاصل کرے تب دوسروں کو سکھائے۔ البتہ کچھ چیزیں خاص کر اخلاقیات زبان سے سکھانے کے بجائے اپنے کردار و سیرت سے سکھانا زیادہ مؤثر ہوتا ہے اور جو شخص خود کو مہذب بنا کر اور جس شعبہ والوں کی راہنمائی کر رہا ہے اس شعبہ کا ماہر ہے تو سیکھنے والے بھی اس کا احترام کریں گے اور دوسرے لوگ بھی اس کا احترام کریں گے۔ اپنے اندر کمال پیدا کرنے والے اور سیرت کو اس کمال کے مطابق ڈھالنے والے کا احترام ان لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے جنہیں اس نے سکھایا ہے۔ آج استاد کی وہ عزت و احترام ہی نہیں کیونکہ سکھانے والا مہارت نہیں رکھتا یا خود اپنے علم پر عمل نہیں کرتا۔