207۔ انسان کی قیمت
قِيْمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهٗ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۸۱)
ہر شخص کی قیمت وہ ہنر و کمال ہے جو اس میں پایا جائے۔
دنیا میں ہر شے کی قدر و قیمت اُس کی طلب و ضرورت کے مطابق ہوتی ہے جس شے کو عوام زیادہ پسند کرتے ہیں اس کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے۔ سونا بھی بہت سی دھاتوں کی طرح ایک دھات ہے، اسے پسند کیا جانے لگا تو قیمت بھی بڑھتی گئی۔ انسان کی بھی مختلف اعتبار سے قدر و قیمت طے ہوتی رہتی ہے۔ کسی نے قوم و قبیلہ، کسی نے فوج و لشکر، کسی نے مال و دولت، کسی نے جسمانی قوت و طاقت، اور کسی نے کرسی و اقتدار کے اعتبار سے اس کی قدر و قیمت کو طے کیا۔
امیرالمومنینؑ نے یہاں ایک جملے میں انسان کی قیمت کا معیار مقرر کیا ہے اور یہ مختصر جملہ خود اتنا معیاری اور قیمتی بن گیا کہ نہج البلاغہ کے جامع سید رضیؒ یہ جملہ لکھنے کے بعد تحریر کرتے ہیں: ’’یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے‘‘۔
عرب کے مشہور زمانہ قدیم کے ادیب جاحظ نے اپنی دو جلدی کتاب البیان والتبین میں دو بار اس جملے کو ذکر کیا اور لکھا کہ ’’اگر میری پوری کتاب میں فقط یہی ایک جملہ ہوتا تو کتاب کےلئے کافی تھا‘‘ اس جملے میں آپ نے انسان کی قدر و قیمت کا معیار اس کے ہنر و کمال اور خیر و خوبی کو قرار دیا جو اس میں پائی جاتی ہے۔ وہ اچھائیاں اور خوبیاں جو دوسرے انسانوں کے نفع و احسان کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہیں عقلاء کے نزدیک وہی انسانیت کی سند ہیں۔
ایک انسان عدل و انصاف، سخاوت و شجاعت کو پسند کرتا ہے تو اس کی قدر و قیمت اور ہے جب کہ ظلم و جور اور بخل و بزدلی کی طرف راغب ہے تو اس کا مقام اور ہوگا۔ اس کی پسند عمل میں ڈھلتی ہے تو اس کی قیمت متعین ہوتی ہے۔امیرالمومنینؑ اس فرمان کے ذریعہ انسان کے ضمیر کو جگا کر حقیقی کمالات کو پہچاننے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر اسے حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اگر کوئی ان کمالات کو دوسرے انسانوں کی خیر خواہی کے لئے استعمال کرتا ہے تو وہ حقیقی طور پر صاحب کمال ہوگا اور یہی اس کی کامیابی ہوگی۔