215۔ تقویٰ
لَا كَرَمَ كَالتَّقْوٰى۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۱۳)
تقویٰ و پرہیزگاری جیسی کوئی بزرگی نہیں۔
اس فرمان میں انسانی عظمت و شرافت اور بزرگی و کرامت کا معیار تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ جملہ پوری انسانیت کے کئی کمالات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور حقیقت میں یہ قرآن کی ترجمانی ہے جہاں ارشاد پروردگار ہے:
’’تم میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزّز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار و متقی ہے۔‘‘
قرآنی اصطلاح میں تقوی ہر اس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں روحِ اخلاص اور نیک و پاکیزہ نیت کو محور بنایا جائے۔ مسئولیت و ذمہ داری کا احساس جس انسان کے وجود پر حکومت کرے وہ متّقی کہلاتا ہے جو نیکی و عدالت کی طرف عمل کے ذریعے دعوت دے اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے قدم اٹھائے، وہ پرہیزگار کہلائے گا، اللہ سے ڈرو کہہ کر اس سے دور نہیں بلکہ اس کی مخالفتوں سے بچ کر اس کے قریب ہونے کا ذریعہ تقوی ہے۔
انسانوں کی قدر و قیمت کو ناپنے کا یہ معیار قائم کر کے امیرالمومنینؑ اس کرامت کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور اہل تقوی کے امام بن کر ان با عظمت راہوں کو طے کرنے کا سلیقہ سکھا رہے ہیں۔