شمع زندگی

217۔ ادب

لَامِيْرَاثَ كَالْاَدَبِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۱۳)
ادب جیسی کوئی میراث نہیں۔

ادب: یعنی وہ اخلاق و فضائل جن سے دوسروں کا احترام ظاہر ہو۔ جیسے بات کرنے میں، اٹھنے بیٹھنے میں تواضع سے پیش آنا۔ اور انسانیت سے گرانے والی عادات و رذائل سے بچنا جیسے تکبر۔ انسان جب دوسروں سے ادب و تہذیب اور حفظ مراتب کے ساتھ پیش آتا ہے تو اسے بھی احترام ملتا ہے۔ دوسروں کا ادب و احترام خاندان کے بغیر عزت کا ضامن ہے، اور مال کے بغیر دوست بڑھانے کا ذریعہ ہے۔

ادب بکھرے ہوئے دلوں کو جوڑ دیتا ہے مالداروں کی عزت کی جاتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ عزت مال کی وجہ سے ہے مگر مال چلا گیا تو عزت بھی ختم ہو گئی۔ مگر مہذب آدمی کی عزت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔

ملنے والے کو بڑھ کر مسکراتے چہرے سے سلام کرنا، باہر سے محفل و مجلس میں آنے والے کو کھلے دل سے جگہ دینا، کسی دکھی سے دکھ بانٹ لینا، یہ سب ادب کی مثالیں ہیں۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس جیسے اخلاق کو اور اس طریقہ زندگی و کردار کو بہترین میراث قرار دیا ہے۔ اور اس طرح ایسے اخلاق اپنانے کی ترغییب دلائی ہے۔

کسی حکیم نے خوب کہا: آپ سونا چاندی کمانے سے زیادہ ادب کمانے کے محتاج ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button