228۔ مشورہ
لا مُظَاهَرَةَ اَوْثَقُ مِنَ المُشَاوَرَةِ ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۱۳)
مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں۔
انسان کی ترقی میں دوسرے انسانوں کا ساتھ دینا بہت اہم ہے۔ اکیلا انسان کسی حد تک ترقی کر بھی جائے تو اس کی انفرادی ترقی اتنی اہم نہیں ہوگی جتنی اجتماعی ترقی اہم ہوتی ہے۔ دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر چلنا معاشرتی ترقی کا اہم اصول ہے اور دوسروں کو ساتھ ملانے کا پہلا قدم مشورہ ہے۔
امیرالمومنینؑ اپنے فرامین میں کسی عام فرد کو نصیحت کرتے ہیں یا کسی گورنر کو حکم دیتے ہیں تو بھی مشورے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس فرمان میں آپؑ نے مشورے کو مضبوط مددگار اور پشت پناہ قرار دیا ہے۔ کسی کو مشورے میں شریک کر کے انسان نے گویا دوسرے کی عقل کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اگر اکیلا فیصلہ کرتا تو غلطی و اشتباہ کا جو امکان تھا وہ مشورے کے بعد کئی گنا کم ہو گیا ہے۔ البتہ آپ کے فرامین میں مشیر کی بہت سی شرائط ذکر ہوئی ہیں جو اپنی جگہ پر بیان ہوں گی۔
اس دور میں گروہ کی صورت میں انجام دئے جانے والے کاموں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ چند افراد مل کر اپنی عقل اور سوچ کے مطابق فیصلہ کریں اور اسی اجتماعی سوچ کے مطابق مل کر عمل کریں تو زندگی کی راہیں بہتر انداز سے روشن ہو سکتی ہیں اور رکاوٹیں آسانی سے برطرف ہو سکتی ہیں اور مقصد تک پہنچنا آسان ہو سکتا ہے۔ یوں ہر شخص دوسرے کا مددگار اور پشت پناہ بن سکتا ہے۔ ایک شرط جو مشورے میں سب سے اہم ہے، وہ امین ہونا ہے۔ بعض حکماء کہتے ہیں کہ دشمن بھی مشورہ مانگے تو اسے صحیح مشورہ دو۔ اگر تمھاری رائے پر عمل کر کے اسے فائدہ ہوا تو وہ دشمنی کے بجائے محبت کرنے لگے گا اور رائے پر عمل نہ کر کے نقصان اٹھایا تو آپ کی امانت داری کا قائل ہوگا۔