232۔ عمل میں کوتاہی
مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۲۷)
جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے۔
انسان زندگی میں ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ غموں اور دکھوں سے محفوظ رہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں غم و حزن کا ایک سبب بیان فرمایا اور یوں واضح فرمایا کہ اس سبب سے بچے رہے تو غم سے بچے رہو گے اور وہ سبب عمل و کوشش میں کوتاہی ہے۔ جو افراد عمل کے وقت غفلت کرتے ہیں وہ نتیجے کے وقت غم و اندوہ سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ایک وقت عمل کا ہوتا ہے اور ایک نتیجہ کا۔
فصل کی کاشت کے وقت جو کسان آرام کرتا رہے وہ فصل اٹھانے کے موسم میں محروم ہی ہوگا۔ جو طالب علم پڑھائی کے وقت سستی کرتا ہے وہ نتائج کے دن ناکام ہی ہوگا۔ جوانی میں محنت کے سب اسباب مہیا ہونے کے با وجود کوتاہی کرنے والا بڑھاپے میں غم ہی کھائے گا۔ اس لیے یہاں نتائج بتا کر امیرالمومنینؑ عمل کا شوق دلا رہے ہیں۔ یہاں عمل میں کوتاہی سے مراد دنیا و آخرت دونوں کے اعمال ہیں اور غم سے مراد بھی دونوں غم ہیں۔
البتہ اس فرمان کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے عمل میں کمی، کوتاہی اور غلطی ہو جائے تو فورا متوجہ ہو جاتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں کہ یہ کوتاہی کیوں ہوئی۔ اس طرح وہ آئندہ کوتاہی سے بچتے ہیں اور گزشتہ کوتاہیوں کو دور کر لیتے ہیں اور یوں زندگی کی کامیابی کی راہوں کو تلاش کر لیتے ہیں۔