236۔ دوستی کے فرائض
لَا يَكُوْنُ الصَّدِيقُ صَدِيْقًا حَتّٰى يَحْفَظَ اَخَاهُ فِيْ ثَلَاثٍ: فِيْ نَكْبَتِهٖ، وَ غَيْبَتِهٖ، وَ وَفَاتِهٖ ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۳۴)
دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے: مصیبت کے موقع پر، اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد۔
انسان زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کا ضرورت مند بھی ہے اور مددگار بھی۔ کبھی اسے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی دوسروں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں سے توقع رکھے مگر دوسروں کو ضرورت پڑے تو ان کی توقعات پر پورا نہ اترے تو حقیقت میں یہ اپنی انسانیت کو زیر سوال لانے کا مرحلہ ہے۔ انسانیت کے اس رشتے کے بعد کئی رشتے ہیں اور ان رشتوں کے بہت سے درجات ہیں۔ ان میں سے ایک رشتہ جسے خود انسان انتخاب کرتا ہے اس کا نام دوستی ہے۔ دوستی ایک ایسا موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔’’نہج البلاغہ میں دوستی‘‘ کے عنوان سے بھی کتابیں موجود ہیں۔
امیرالمؤمنینؑ نے یہاں حقیقی دوست کی تین نشانیاں بیان کی ہیں۔ تین مواقع پر دوستی نبھانے والا ہی صحیح دوست ہے اور اگر ان مواقع پر دوستی کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو وہ حقیقی دوست نہیں، ملنے ملانے والا ہو سکتا ہے۔ پہلا موقع یہ ہے کہ اگر ایک دوست پر مشکل وقت آئے تو اس کا مددگار ہو، اپنی طاقت کے مطابق اس کا ساتھ دے، مالی یا جسمانی طور پر جو کچھ کر سکتا ہے کرے اور اگر یہ طاقت نہیں رکھتا تو تسلی تو دے سکتا ہے اور غم میں شریک تو ہو سکتا ہے۔ حقیقی دوست مشکل گھڑی میں مدد کرتے وقت یہ امید نہیں رکھتا کہ میں مدد کروں گا تو کل کو میری مدد بھی ہوگی۔ یہ دوستی نہیں، یہ تجارت ہو گی۔ دنیا جب کسی سے پیٹھ پھیر جائے اس وقت جو ساتھ کھڑا رہے وہ دوست ہے۔
دوسری نشانی یہ ہے کہ جب دوست موجود نہیں اس وقت بھی اس کے دل اور زبان پر کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے کہ اگر وہ سامنے ہوتا تو نہ ہوتی۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کا، اس کے خاندان کا مال و منال کا محافظ بن جائے۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ موت کے بعد اس کے خاندان کا خیال رکھے، اس کے لیے نیک کام انجام دے اور اس کے لیے دعا کرے۔ اگر آپ کسی میں یہ صفات دیکھیں تو اسے دوست بنائیں اور دوست سمجھیں۔