239۔ صدقہ
اِسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ۔ (حکمت ۱۳۷)
صدقے کے ذریعے رزق و روزی طلب کریں۔
انسان کے اوصاف ِکمال میں سے ایک سخاوت ہے، دردمندی ہے اور دوسروں کا احساس ہے۔ اب کہیں کسی انسان کو ضرورت و احتیاج ہے تو اُس کے حالات اور ضرورت کو مدنظر رکھ کر اُس کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنا، اُس کی زندگی میں خوشیوں کا لانا، اُس کے دکھوں اور دردوں کا مداوا کرنا، اس میں جینے کی امید اور امنگ زندہ رکھنے کا نام صدقہ ہے۔ یہ صدقہ مادی بھی ہوتا ہے اور روحانی و معنوی بھی۔
امیرالمؤمنینؑ کے اس فرمان میں رزق سے مراد مادی رزق بھی ہو سکتا ہے اور روحانی رزق بھی۔ رزق یعنی جو آپ کو عطا ہوا ہے۔ عطا کرنے والے کی خوشنودی اور اُس کی مخلوق کی خدمت و خوشحالی کے لیے تم بھی عطا کرو تو رزّاق آپ کو اور دے گا۔ اُس نے تمہیں بولنا عطا کیا تو آپ اپنے میٹھے بول سے اور خالصانہ دعا سے کسی کا احساسِ محرومی امید میں بدل دیں تو یہ صدقہ ہو گا۔ اُس نے آپ کو سوچنے کی صلاحیت عطا کی تو ضرورت مندوں کی مدد کے لیے سوچنا صدقہ ہے۔
جو ملا ہے اُسے دو، جو عطا ہوا ہے اُسے عطا کرتے جاؤ تو عطا کرنے والا بڑھاتا رہے گا۔ علم ملا ہے تو اسے معاشرے کی تقویت کے لیے استعمال کرو اور دوسروں کو تعلیم دو تو تمھیں اور علم ملے گا۔ مال دیں یا کوئی اور معنوی مدد کریں تو سب سے بڑی عطا جو تمہیں نصیب ہوتی ہے، وہ سکون ہے۔ لہذا کسی ذریعے سے دوسروں کو سکون دو تمہیں سکون ملے گا۔