240۔ سخاوت
مَنْ اَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۳۸)
جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے۔
انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کچھ دیتا ہے تو کچھ لینے کی توقع بھی رکھتا ہے۔ بہت کم با کمال ایسے ہوتے ہیں جو عوض کی توقع سے بالا تر ہو کر دیتے ہیں۔ ملنے کی توقع جتنی مضبوط ہوتی ہے دینا اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؑ اسی کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ ملنے کا یقین ہے تو دینے میں دریا دلی ہوتی ہے بلکہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملنے کا یقین کتنا ہے۔ یہاں دینے سے مراد فقط مال و صدقہ ہی نہیں بلکہ ہر وہ شے جو کسی کے پاس ہے اس کے عوض ملنے کا یقین ہے تو خرچ میں اطمینان ہوتا ہے۔ جو قوم کی خدمت کرتا ہے اسے عوض میں قوم کی سرداری ملتی ہے۔ جسے فکر عطا ہوئی ہے وہ اسے تقسیم کرتا ہے تو اس پر کمال کی راہیں کھل جاتی ہیں، اس کا نام زندہ رہتا ہے۔