241۔ میانہ روی
مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۴۱)
جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا۔
انسانی زندگی میں مال کا بہت اثر ہے۔ دین میں دنیا کو محل تجارت اور مقام زراعت قرار دیا گیا ہے۔ انسان کی مالی زندگی اس کے عقل و شعور کا بھی پتہ دیتی ہے۔ البتہ مال کو کمال کے لئے وسیلہ و ذریعہ ٹھہرایا ہے، ہدف و مقصد نہیں۔ اس لئے جہاں مال مقصد ہو وہ قابل مذمت ہے اور جہاں اچھے مقصد کا وسیلہ ہو، وہاں قابل تعریف ہے۔
امیرالمومنینؑ نے یہاں دو لفظوں میں مالی زندگی کی بہتری اور اقتصادیات کے علوم کا خلاصہ بیان فرما دیا ہے: مالی امور میں میانہ روی و اعتدال کو فقر و تنگدستی سے بچنے کا سبب قرار دیا ہے۔ میانہ روی یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے۔ اگر ضرورت سے زیادہ خرچ ہوگا تو اسراف کہلائے گا جس کو بُرا کہا گیا۔ اگر ضروریات پر بھی خرچ نہ ہو تو وہ بخل کہلاتا ہے، اس کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
آپؑ نے گویا قرآن کے اس اصول کا خلاصہ بیان فرمایا ہے جہاں ارشاد الہی ہے: یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔
سقراط نے کہا کہ اقتصاد یہ ہے کہ فقط مال نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں کو اپنا اپنا حصہ دو۔ البتہ میانہ روی و اعتدال پسندی کو زندگی کے تمام شعبوں میں سراہا گیا ہے۔ عبادت میں اعتدال، لوگوں سے برتاؤ میں اعتدال۔