242۔ محبت
اَلتَّوَدُّدُ إِلَى النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۴۲)
لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل ہے۔
انسانی تعلقات اور اجتماعی علوم کا اگر خلاصہ دیکھنا ہو تو تین الفاظ کا یہ جملہ ملاحظہ کریں ۔ انسان کی زندگی کے دو مراحل ہیں ایک خود دوسروں سے محبت و مؤدت اور خوشروئی و خوش کلامی سے پیش آنا اور دوسرا دوسروں کی بدخلقی، زیادتی اور نا انصافی کو اپنے معیار کے مطابق محبت سے جواب دینا۔ یہ برتاؤ، خوشامد اور بناوٹ کے طور پر نہیں بلکہ دل سے اور خلوص کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لوگ انسان کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور ظاہر میں سے بھی زبان کا برتاؤ بہت اہم ہے۔ اس انداز سے برتاؤ لوگوں کی محبت کو جذب کرتا ہے۔ لوگ ایسے شخص کو پسند کرتے ہیں، اس شخص کے عیب پر پردہ پڑا رہتا ہے اور اگر مقابل شخص دلی طور پر محبت نہیں بھی کرے گا تو بھی اس کی زبان خاموش رہے گی۔
یہ اظہارِ محبت جہاں دل اور زبان سے ہونا چاہیے وہاں عملی اقدام سے بھی ہونا چاہیے۔ کسی کو مشکل پڑے تو مددگار بن جائے، دوسروں کے نامناسب رویے پر قدرت کے باوجود معاف کردے۔ اللہ کا سب سے بڑا دشمن شیطان اللہ سے کہتا ہے کچھ مہلت دے دے فرمایا دے دی۔ فرعون دشمن خدا کہتا ہے میں تمہارا ربِ اعلیٰ ہوں تو اللہ موسیؑ و ہارونؑ سے فرماتا ہے کہ اسے میری طرف بلاؤ مگر اس سے بات نرمی سے کرنا۔ یہ اللہ نے اپنی مخلوق سے محبت کا اظہار کیا ہے
انسان کو بھی انسان سے جو اللہ کی مخلوق ہے، اسی طرح پیش آنا چاہیے۔ ایسا برتاؤ انسانوں کو جوڑ دے گا معاشرے میں سکون ہو گا اور انسان کی زندگی بہتر انداز سے بسر ہوگی۔